|

وقتِ اشاعت :   March 12 – 2017

ہالینڈ میں ایک ترک وزیر کو ملک بدر کیے جانے کے بعد وہاں ترک مظاہرین اور پولیس کے درمیان جھڑپیں ہوئی ہیں۔ ادھر ترک وزیر کی ملک بدری پر ترک وزیراعظم بن علی یلدرم نے کہا ہے کہ ان کا ملک اس ‘ناقابلِ قبول رویے’ کا ‘سخت ترین طریقے’ سے جواب دے گا۔ روٹرڈیم میں سنیچر کو رات گئے ترک قونصل خانے کے باہر احتجاج کرنے والے تقریباً ایک ہزار مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے آبی توپ اور گھڑسوار پولیس بھی استعمال کی گئی۔ ترک وزیر فاطمہ بتول سایان کایا ترکی میں صدر اردوغان کے اختیارات میں اضافے کے لیے ہونے والے ریفرینڈم کے سلسلے میں روٹرڈیم میں مقیم ترک باشندوں کی حمایت حاصل کرنے کے لیے آئی تھیں۔ ڈچ حکومت کا کہنا ہے کہ اس قسم کی ریلیوں سے ہالینڈ میں عام انتخابات سے پہلے کشیدگی میں اضافہ ہوسکتا ہے۔ حکام نے ترک وزیر کو قونصل خانے میں داخلے کی اجازت نہیں دی جس کے بعد جھڑپوں کا آغاز ہوا۔ بعدازاں پولیس نے ترک وزیر کو اپنی نگرانی میں جرمنی کی سرحد تک پہنچایا جہاں سے انھیں ملک بدر کر دیا گیا۔ ڈچ وزیراعظم مارک رتے نے اتوار کی صبح فاطمہ بتول کو جرمن سرحد پر پہنچانے کی تصدیق کی تھی۔
ریلیپولیس نے مظاہرین کو منظم انداز میں منتشر کیا
روٹرڈیم کے میئر نے اتوار کو بتایا ہے کہ فاطمہ بتول کایا اب ہالینڈ سے چلی گئی ہیں۔ خیال رہے کہ اس سے قبل ہالینڈ کی حکومت ترکی کے وزیر خارجہ مولود چاویش اوغلو کی پرواز کو بھی روٹرڈیم میں اترنے کی اجازت دینے سے منع کر چکی ہے۔ اس اقدام پر ترک صدر طیب اردوغان نے اپنے سخت رد عمل میں ڈچ قوم کو ‘نازیوں کی باقیات اور فسطائی’ قرار دیا تھا۔ خیال رہے کہ ترکی میں 16 اپریل کو صدر کے اختیارات میں اضافے کے لیے جو ریفرینڈم منعقد کیا جا رہا ہے اس کے تحت ترکی کو پارلیمانی طرز حکومت کے بجائے امریکہ کی طرح صدارتی طرز حکومت میں تبدیل کرنے کے بارے میں فیصلہ کیا جائے گا۔ اگر یہ ریفرینڈم کامیاب رہتا ہے تو صدر کو مزید اختیارات حاصل ہو جائیں گے جس کے تحت وہ وزیر نامزد کر سکیں گے، بجٹ تیار کر سکیں گے، سینیئر ججز کی تقرری کر سکیں گے اور بعض قوانین وضع کر سکیں گے۔ اس کے تحت صدر ملک میں ایمرجنسی نافذ کر سکتے ہیں اور پارلیمان کو برخاست کر سکتے ہیں۔ ریفرینڈم کو کامیاب بنانے کے لیے انھیں اندرون اور بیرون ملک رہنے والے ترکوں کی حمایت حاصل کرنا ہوگی۔ خیال رہے کہ 55 لاکھ ترکی بیرون ملک رہتے ہیں جن میں سے 14 لاکھ اہل ووٹرز تو صرف جرمنی میں رہتے ہیں اور ان کی حمایت حاصل کرنا انتہائی اہم قرار دیا جا رہا ہے۔
ریفرینڈم ریلیرجب طیب اردوغان کی حمایت میں مختلف یورپی ممالک میں ریلیاں منعقد کرنے کا منصوبہ ہے
اس لیے جرمنی آسٹریا اور ہالینڈ سمیت ان ممالک میں مختلف قسم کی ریلیوں کا انعقاد کیا جا رہا ہے جہاں ترکوں کی بڑی تعداد موجود ہے۔ سکیورٹی وجوہات کی بنا پر بہت سے ممالک میں ایسی ریلیوں پر پابندی لگائی گئی ہے۔ آسٹریا کے وزیر خارجہ سیبسٹیئن کرز نے کہا کہ صدر اردوغان کو وہاں ریلیاں کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی کیونکہ اس سے اختلاف بڑھے گا اور ہم آہنگی کو دھچکہ لگے گا۔ بہت سے یورپی ممالک گذشتہ سال ناکام بغاوت کے بعد ترکی کے رویے سے بھی نالاں ہیں جس میں ہزاروں لوگوں کو حراست میں لیا گیا اور لاکھوں کو نوکریوں سے برخاست کر دیا گیا تھا۔