|

وقتِ اشاعت :   March 20 – 2017

حال ہی میں عدالت عالیہ کے حکم سے بلوچستان کے تقریباً ستر کے قریب افسروں کو ان کے عہدوں خصوصاً انتظامی عہدوں سے ہٹا دیا گیا ۔ ایک حکم نامے میں ان کو ایس اینڈ جی اے ڈی میں رپورٹ کرنے کو کہا گیا۔ ان افسروں کو مقابلوں کے امتحانات کے بعد حکومت بلوچستان نے قانونی طورپر بھرتی کیا تھا بعد میں نا معلوم وجوہ کی بناء پر ان کو انتظامیہ کے پوسٹوں پر کام کرنے کے مواقع فراہم کیے گئے بعض افسروں کی کارکردگی بہت زیادہ اچھی رہی وہ زیادہ بڑے عہدوں پر تعینات کیے گئے ، ان کے خلاف شکایات نہ ہونے کے برابر تھیں ۔ ذاتی ناراضگی کی بناء پر کچھ شکایتیں ہونگی لیکن حقیقت میں ان کی مجموعی کارکردگی انتہائی اچھی رہی اور ان میں اکثریت نے اپنے آپ کو اہل ثابت کیا اور عوام الناس کی خدمت کرنے کی کوشش کی جو قابل ستائش ہے ۔شکایات کے مقابلے میں ان کی کارکردگی زیادہ بہتر نظر آئی ۔ جہاں پر ان افسران نے خدمات سر انجام دیں عوام ان کی بہتر کارکردگی کی گواہی دیں گے۔عوامی مفاد میں ہم کیڈر اور غیر کیڈر افسران کے جھگڑے میں نہیں پڑتے اور حکومت کو مشورہ دیتے ہیں کہ وہ ان افسران کی خدمات سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھائے ،ان کی مناسب جگہوں پر پوسٹنگ کرے تاکہ وہ عوامی خدمات انجام دیتے رہیں۔ دس سال سے زیادہ ان کو انتظامی امور چلانے کا تجربہ حاصل ہوچکا ہے ، اس کو کسی طرح بھی ضائع نہیں ہونے دینا چائیے ۔ نئے بھرتی ہونے والے افسران سے انکی اہمیت زیادہ ہونی چائیے ۔ انتظامی اصلاحات کی صورت میں ان تجربہ کار افسران کو انتظامی امور سے منسلک رہناچائیے ۔ برائے مہربانی ان تجربہ کار افسران کو دوبارہ منشی نہ بنائیں ان کے شایان شان ان کی تعیناتی ہو تاکہ وہ سماج اور عوام کی بہتر خدمت کر سکیں ۔ چونکہ یہ عدالت عالیہ کا فیصلہ ہے اس لیے حکومت کو کچھ زیادہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ عدالت کے فیصلے کے خلاف کوئی بھی قدم نہیں اٹھانا چائیے بلکہ رائے عامہ کے ذریعے یہ معلوم کیاجائے کہ ان کی خدمات کا استعمال کس صورت میں اور کہاں ہونا چائیے ۔ بہر حال ان سب کو انتظامی افسران ہی سمجھا جانا چائیے ان کو کلرک اور منشی نہ بنایا جائے ان کو افسر ہی رہنے دینا چائیے ۔