|

وقتِ اشاعت :   March 21 – 2017

سپریم کورٹ کے ایک فیصلے کے بعد صوبائی حکومت نے ان تمام انتظامی افسران کو اپنے عہدوں سے ہٹا دیا اور ان کو متعلقہ محکمہ میں رپورٹ کرنے کا با قاعدہ سرکاری حکم نا مہ جاری کردیا ۔ اس سے قبل بعض انتظامی افسران کلیدی اور انتظامی پوسٹوں پر تعینات تھے ۔ بلوچستان کے انتظامی کیڈر کے چند ایک افسران نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا جس کے بعد یہ عدالتی فیصلہ آیا اور حکومت کو عدالتی فیصلے کے بعد قانونی کارروائی کرنی پڑی ۔ یہ بات درست ہے کہ ان کا انتظامی کیڈر یا سیکرٹریٹ گروپ سے تعلق نہیں تھا ، ان کو اس مقصد کے لئے بھرتی نہیں کیا گیا تھاتاہم انہوں نے اپنے اپنے امتحانات پاس کیے اور انٹر ویو میں کامیاب ہونے کے بعد ان کو ملازمتیں اور پوسٹیں دی گئیں۔ اس بات کو دس سال کا طویل عرصہ گزر گیا، انہوں نے انتظامی پوسٹوں پر بھی خدمات سر انجام دیں اور زبردست تجربہ حاصل کیا، اس کے بعد وہ اس دور میں داخل ہوئے جس کو مڈ کیریئر Mid Carierکہا جاتا ہے ۔ اس فیصلے کے بعد حکومت اور سیاستدانوں پر یہ فرض بنتا ہے کہ وہ ان کے لئے اچھے اور بہتر مواقع پیدا کریں تاکہ ان کے تجربے اور علم کو بلوچستان کے عوام کی فلاح وبہبود کے لئے کام میں لایاجائے ۔ ان کے ساتھ اس وجہ سے زیادتی نہ کی جائے کہ ان کے خلاف سپریم کورٹ نے ایک قانونی فیصلہ دیا ہے بلکہ ان تمام افسروں کو بلوچستان کا قیمتی اثاثہ سمجھ کر ان کو بہتر اور زیادہ اہم ذمہ داریاں دی جائیں اسی میں بلوچستان اور اس کے عوام کی بھلائی ہے ، ان کو تنگ اور تاریک گلی میں نہ پھینکا جائے بلکہ ان کے تجربہ کو زیادہ بہتر طورپر استعمال میں لایاجائے ۔ ہم نے پہلے بھی ان کالموں میں بلوچستان کے انتہائی لا محدود وسائل کا بار بار ذکر کیا اور بتایا کہ پورے پاکستان کی زیادہ قیمتی دولت بلوچستان میں ہے کہیں اور نہیں مگر افسوس کا مقام ہے کہ ستر سال گزرنے کے بعد بھی ان تمام وسائل کو عوام الناس کے مفاد میں استعمال میں نہیں لایا گیا ۔ بلوچستان کو جائز شکایات ہیں کہ سندھک کے تانبے اور سونے کے ذخائر سے صرف اور صرف بلوچستان کو رائلٹی ادا کی گئی وہ بھی ڈھائی فیصد۔نا معلوم خوف کی وجہ سے معدنیات کے اس زرخیز علاقے جس کو چاغی کہا جاتا ہے کو بجلی ‘ پانی اور دیگر بنیادی سہولیات سے محروم رکھا گیا ۔ سندھک سے تیس کلو میٹر کے فاصلے پر ایرانی بجلی سستے داموں فروخت کے لئے حاضر ہے لیکن گزشتہ بیس سالوں سے یہ بجلی اس وجہ سے نہیں خریدی گئی کہ اس سے پورا علاقہ معاشی ‘ معدنی اور صنعتی اعتبار سے ترقی کرے گا۔ واضح رہے کہ ایران نصف قیمت پر بلوچستان کو بجلی فروخت کرنے کو تیار ہے جبکہبجلی بنانے میں پاکستان کی حکومت د گنا خرچ کرے گی۔ معلوم ہوتا ہے کہ حکومت پاکستان چاغی میں معاشی ‘ صنعتی اور معدنی ترقی سے خوفزدہ ہے، اگلے چند ماہ میں سندھک کے معدنی وسائل کو بلوچستان کے کنٹرول میں دیا جانے والا ہے ۔ پہلے ہماری گزارش یہ ہوگی کہ حکومت بلوچستان اس پروجیکٹ کو چلائے اور چینی کمپنی کو دوبارہ ٹھیکہ نہ دے کیونکہ اس نے بلوچستان اور اس عوام کے ساتھ انصاف نہیں کیا بلوچستان کے وسائل کو بے دردی سے استعمال کیا اور زیادہ سے زیادہ منافع کمایا ، حکومت اس پروجیکٹ کو خود چلائے ۔واضح رہے کہ آزمائشی پیداوار حاصل کرنے کے دوران کئی ماہ تک حکومت نے سندھک پروجیکٹ کو خودچلایا تھا اور آزمائشی پیداوار کو بین الاقوامی مارکیٹ میں فروخت بھی کیا تھا اور پچاس کروڑ روپے سے زیادہ منافع کمایا تھا ، اس لیے سندھک کو چلانا مشکل کام نہیں ہے ۔ اس بناء پر ریکوڈک کو بھی بلوچستان حکومت خود چلائے ، ہم بین الاقوامی سرمایہ کاری کے سخت خلاف ہیں اس لیے کہ بین الاقوامی کمپنیاں ملکوں اور ان کی قومی دولت کا استحصال کرتی ہیں ترقی کے نام ستر فیصد رقم اپنے ملک لوٹ کرلے جاتی ہیں ، اس میں چین بھی شامل ہے ۔ چین کا دنیا بھر کے ساتھ تعلقات میں مالی اورمعاشی مفاد ضرور شامل ہوتا ہے بلوچستان کے عوام چین سے متعلق اچھی رائے نہیں رکھتے اور سندھک کے استحصال کو وہ ایک مثال کے طورپر پیش کرتے ہیں کہ بلوچستان کو حصہ صرف ڈھائی فیصد حصہ ملا وہ بھی رائلٹی کی صورت میں، حالانکہ معدنی دولت بلوچستان کی تھی ، زیادہ سے زیادہ حصہ چین اور اسلام آباد لے گئے اور بلوچستان کے عوام کے بنیادی حقوق کو سلب کیا ۔ اس لیے ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ان ستر کے قریب انتظامی افسران کا ایک پول بنائیں اور ان کو بلوچستان کے اہم ترین معاشی منصوبوں کو چلانے کے لئے تیار کریں بلکہ پول کے لئے مناسب افراد بذریعہ امتحانات تلاش کیے جائیں ۔ گوادر پورٹ ‘ اسٹیل ملز‘ سندھک‘ ریکوڈک سب کو بلوچستان کے نوجوان ہی چلائیں گے اور امید بھی انہی سے وابستہ ہے ۔