|

وقتِ اشاعت :   March 21 – 2017

اسلام آباد : وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے واضح کیا ہے کہ پاکستان میں کسی دہشت گرد تنظیم کانیٹ ورک یا ہیڈ کوارٹر موجود نہیں اور نہ ہی کسی دہشت گرد تنظیم کو پاک سرزمین میں کام کرنے کی اجازت ہے کسی کو علم ہے تو معلومات شیئر کریں، کارروائی کی جائے گی اب دہشتگردی کے نیٹ ورک سرحد پار ہیں ٗ ملک بھر میں ہزاروں گرفتاریاں کیں امن وامان کی بہتر صورتحال کی تعریف دنیا کررہی ہے دہشتگرد اور فرقہ وارانہ تنظیموں میں فرق ہے کراچی کی صورتحال سب نے مل کر بہتر کی کئی لوگوں کو خواہ مخواہ پوائنٹ اسکورنگ کا شوق ہے میری ایک غیر ارادی ملاقات پر بہت شور کیا گیا‘ جب کالعدم تنظیموں کے رہنما سابق صدر اور وزراء سے ملتے تھے تب کوئی نہیں بولا‘ سیکیورٹی کے مسئلے پر سیاست نہیں ہونی چاہیے۔ پیر کوسینٹ اجلاس کے دور ان سینیٹر سحر کامران اور دیگر ارکان کی تحریک پر بحث سمیٹتے ہوئے وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے کہا کہ اس ایوان میں دیئے گئے میرے گزشتہ بیان کے بعد اس بیان کو ایوان کے باہر نئے نئے معنی پہنائے گئے جس دن میں نے یہ بیان دیا تھا بہتر ہوتا اسی دن وضاحت مانگ لیتے۔ میں چیئرمین سینٹ سے یہ کہتا ہوں کہ ہمیں حقائق اور دلیل کے ساتھ سچ بولنا چاہیے‘ ایوان میں جو بات ہو اس کا ایوان میں جواب آنا چاہیے۔ اپنے بیان کی وضاحت کرنا چاہتا ہوں اس لئے خود ایوان میں آیا ہوں۔ میرے سابقہ بیان کی کاپی اس ایوان میں تقسیم کی جائے اگر میں نے یہ کہا ہے کہ دہشت گردوں سے نرمی برتنی چاہیے تو جوابدہ ہوں‘ میں نے کسی کو کمتر دہشتگرد نہیں کہا ٗ ان سینیٹرز کا شکریہ ادا کرتا ہوں جنہوں نے ہوش سے اور حقائق اور دیل سے بات کی۔ آج ہم کالعدم تنظیموں کے بارے میں دونوں ایوانوں میں بات کرتے ہیں ٗاس معاملے پر میڈیا میں بھی بات ہوتی ہے۔ میں نے دونوں ایوانوں میں کھل کر کہا کہ سیکیورٹی سب کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔ کراچی کی صورتحال کے حوالے سے 28 اگست 2013ء کے اخبارات نکال لیں‘ ڈاکٹر فاروق ستار نے کیا مطالبہ کیا۔ بعد ازاں میں نے وزیراعلیٰ سندھ کو کپتان کہا‘ رینجرز ہیڈ کوارٹرز‘ گورنر‘ سینئر سیاسی رہنماؤں‘ وزیراعلیٰ سمیت سب سے ملاقاتیں کیں۔ میں نے سی ایم سے کہا کہ یہ صوبائی مسئلہ ہے، سب کریڈٹ آپ کا ہے، آپ صورتحال کو بہتر کریں‘ میں نے ہمیشہ کہا ہے کہ یہ شیئرڈ رسپانسیبلٹی ہے۔ قائم علی شاہ پر بہت دباؤ تھا لیکن انہوں نے عمدہ کام کیا، فیصلے وفاقی حکومت نے کئے‘ وزارت داخلہ کا بنیادی کردار تھا لیکن افواج پاکستان‘ سول آرمڈ فورسز‘ انٹیلی جنس ایجنسیاں‘ عوام‘ پولیس اور صوبائی حکومتیں سب ساتھ نہ ہوتیں تو صورتحال بہتر نہ ہوتی۔ پانچ سے چھ دھماکے روزانہ ہوتے تھے‘ دھماکہ نہ ہونا بڑی خبر ہوتی تھی۔ اب مہینوں‘ ہفتوں دھماکے نہیں ہوتے‘ شمالی وزیرستان سے دہشت گرد حملے ہوتے تھے، کیوں کسی نے کارروائی نہیں کی‘ دہشتگردی کے نیٹ ورک اب سرحد پار ہیں۔ ان کے سہولت کار اور ہیلپرز کے خلاف بھی کارروائی ہوئی ہے۔انہوں نے کہا کہ ہزاروں لوگوں کو پکڑا گیا ہے، کئی کے خلاف کیسز بنے‘ کئی پر ہماری نظر ہے۔ سیکیورٹی کی صورتحال میں بہت بہتری آئی ہے، کسی دہشت گرد تنظیم کو پاکستان میں کام کرنے کی اجازت نہیں ہے۔جو بھی دہشت گردی میں ملوث ہے اس کو پکڑا جائے گا یا ختم کیا جائے گا۔ کسی دہشت گرد تنظیم کا ہیڈ کوارٹر اب پاکستان میں نہیں ہے‘ پہلے شمالی وزیرستان میں ان کے ہیڈ کوارٹرز تھے۔ وزیر داخلہ نے کہا کہ فرقہ وارانہ سرگرمی میں ملوث تنظیموں کے رہنما تو کالعدم ہو جاتے ہیں وہ بھی اسی طرح کیس بھگتتے ہیں جس طرح دہشت گرد لیکن ان کے ورکرز اور پیروکاروں جن پر الزام نہیں ہوتا ان کے خلاف کارروائی کے لئے قانون نہیں ہے کیونکہ وہ دہشتگردی میں ملوث نہیں ہوتے۔ یہاں کہا گیا میں جماعتوں سے ملتا ہوں‘ جن سے میں ملا وہ جے یو آئی (ف) ‘ جے یو آئی (س) اور جماعت اسلامی کے رہنماؤں کے ساتھ آئے۔ سابق حکومتوں کے وزراء سے جب وہ ملتے رہے تب تو شور نہیں ہوا۔ اس وقت کے صدر سے بھی ایک صاحب ملے ان کی تصاویر بھی موجود ہیں تب تو کسی نے بات نہیں کی۔ ایک صاحب نے قومی اسمبلی کا انتخاب لڑا تب کسی نے کارروائی نہیں کی۔ وہ پی ایم ایل (ن) کے امیدوار سے ہار گئے۔ بعد ازاں ہمارے امیدوار کو ڈی سیٹ کردیا گیا تب تو کوئی نہیں بولا۔ سپریم کورٹ‘ ہائی کورٹس میں وہ پھرتے رہے‘ تب بھی اگر یہ شور کرتے تو مجھے اچھا لگتا۔ ایک غیر ارادی ملاقات میں اگر وہ آگئے اور خاموش بیٹھے رہے تو اس پر شور کیا گیا۔ دہشتگرد تنظیم کی تو کوئی گنجائش نہیں ہے لیکن فرقہ وارانہ سرگرمی میں ملوث لوگوں کے حوالے سے قانون میں فرق ہے۔ دونوں ایوانوں میں نیا قانون لانے کیلئے ذمہ داری متعلقہ اداروں کو دی ہے تاکہ دہشتگرد فرقہ وارانہ تنظیموں کے خلاف ضروری کارروائی ہوسکے۔جب حکومت کسی کو کالعدم تنظیم ڈیکلیئر کرتی ہے تو اس کا ایک طریقہ کار اختیار کیا جاتا ہے‘ اس تنظیم کو اپیل کا حق بھی ہے۔وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے کہا کہ ایک فرقہ وارانہ تنظیم کا کیس ابھی بھی چل رہا ہے، معاملہ ہائیکورٹ میں ہے‘ میں نے کبھی کسی صوبائی حکومت پر تنقید نہیں کی۔ تمام اداروں کو مل کر کام کرنا چاہیے اور پاکستان کو درپیش زندگی اور موت کے مسئلے پر مل کر پیش رفت کرنی چاہیے۔ یہ شیئرڈ رسپانسبلٹی ہے۔ سیکیورٹی کے مسئلے پر سیاست نہیں ہونی چاہیے۔ اب تک کی کامیابیاں ہمارے مل کر کام کرنے سے ہوئی ہیں۔ مشترکہ کاوشوں سے ہم جو تھوڑا سفر رہ گیا ہے اس کو بھی طے کرلیں گے۔ چوہدری نثار نے ارکان اسمبلی سے اپیل کی کہ سکیورٹی کے معاملے کو سیاست کی ں ذر نہیں کرنا چاہیے ٗکبھی سندھ اور خیبرپختونخوا حکومت پر تنقید نہیں کی، سیہون واقعے کے بعد مجھ پر تنقید ہوئی جس کی وضاحت کی۔دریں اثناء وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے سپاٹ فکسنگ میں ملوث تمام کرکٹرز کے نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ پر ڈالنے کی منظوری دیتے ہوئے ہدایت کی ہے کہ سپاٹ فکسنگ میں ملوث کھلاڑیوں کے ساتھ ساتھ ان کے بکیز کے خلاف بھی کارروائی کی جائے جو اس گھناؤنے کاروبار میں ملوث ہیں، تفصیلات کے مطابق پیر کے روز وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے سپاٹ فکسنگ معاملے پر سخت ایکشن لیتے ہوئے کھلاڑیوں اور بکیز کے خلاف کارروائی کا فیصلہ کیا ہے، یہ فیصلہ چوہدری نثار علی کی زیر صدارت اعلیٰ سطحی اجلاس میں کیا گیا جس مین سیکریٹری داخلہ ایڈووکیٹ جنرل، نادرا، پی ٹی اے، ایف آئی اے اور وزارت داخلہ کے سینیئر افسران بھی شریک تھے، ای سی ایل پر ڈالنے والے کھلاڑیوں میں شرجیل خان، خالد لطیف، ناصر جمشید، شاہ زیب حسن خان اور محمد عرفان شامل ہیں،سپاٹ فکسنگ کے معاملے پر ایف آئی اے حکام کی جانب سے وزیر داخلہ کو آگا کیا گیا ہے کہ خالد لطیف اور محمد عرفان نے ایف آئی اے کواپنے بیانات ریکارڈ کرا دیئے ہیں جبکہ دیگر کھلاڑی آج منگل کو اپنے بیانات ریکارڈ کرائیں گے، اس کے علاوہ وزیر داخلہ نے پی ٹی اے حکام کو ہدایت جاری کے ہے کہ کرکٹ میں جوا لگانے اور اس کو فروغ دینے والی تمام ویب سائٹس کو بھی بند کرنے کے حوالے سے اقدامات کئے جائیں تاکہ اس گھناؤنے کاروبار کا سرباب کیا جائے، وزیر داخلہ نے ایف آئی اے کو بھی ہدایت کی ہے کہ سپاٹ فکسنگ معاملے کو ہر پہلو سے شفاف اور غیر جانبدانہ تحقیقات کی جائے تاکہ پاکستان کا نام بدنام کرنے والوں کو قانون کے کٹہرے میں لایا جائے اور کیس کو منطقی انجام تک پہنچایا جاسکے، چوہدری نثار نے کہا کہ اس معاملے کی تفتیش میں زیرو ٹالرنس پالیسی اظہار کی جائے اور کسی بھی ملوث شخص کے ساتھ کسی بھی قسم کی رعایت نہ ہونی چاہئے، جبکہ ایف آئی اے حکام نے نادرا بلڈنگ پر بھی ہونی والی پیش رفت سے آگاہ کیا، وزیر دساخلہ چوہدری نثار نے نادرا حکام کو ہدایت کی کہ آئندہ نادرا دفاتر کے لئے کوئی بھی عمارت کرایہ پر حاصل کرنے کی بجائے تعمیر کرنے کو ترجیح دی جائے،نادرا کو اپنی عمارتوں کے قیام کیلئے سرکاری زمینوں کی نشاندہی کرنی چاہئے اور عمارتوں کی تعمیر کیلئے مرحلوار بلڈنگ پلان ترتیب دیا جائے، اجلاس میں برطانوی ہوم سیکرٹری کے دورہ پاکستان کے سلسلے میں کیے جانے والے سیکیورٹی انتظامات اور دورے کے دوران امیگزیشن، کاؤنٹر ٹیررزم اور ہومن ٹریننگ جیسے مختلف امور میں تعاون کے فروغ کیلئے ممکنہ دوطرفہ معاہوں پر غور کیا گیا۔