|

وقتِ اشاعت :   March 30 – 2017

کوئٹہ: بلوچستان نیشنل پارٹی کے مرکزی مذمتی بیان میں کہاگیاہے کہ بلوچستان میں اولپمک ایسوسی ایشنز کو نظرانداز کرنا قابل مذمت امر ہے ایسا روش کسی بھی صورت برداشت نہیں کیاجائیگا ،اولپمک ایسوسی ایشنز جو کھیل کے فروغ کیلئے کلیدی کرداراداکررہے ہیں لیکن اس کے باوجود محکمہ سپورٹس نے انہیں نظر انداز کرنے کی پالیسی اپنائی رکھی ہے ویسے ہوناچاہئے تھاکہ سپورٹس کے حوالے سے مذکورہ تنظیموں کو یکساں فنڈز دئیے جاتے لیکن کئی سالوں سے اس محکمے میں بھی کرپشن ،اقرباء پروری کا بازار گرم دکھائی دیتاہے فوری طور پر جو اولپمک ایسوسی ایشنز کو اہمیت دی جائے تاکہ مختلف کھیلوں کے شعبوں کی فروغ کو یقینی بنایاجاسکے اور چند سالوں سے جوفنڈز استعمال کئے گئے ہیں ان کی بھی تحقیقات ہونی چاہئے ،دریں اثناء بی این پی کے بیان میں کہاگیاکہ بلوچ علاقوں میں جس میں سنجیدی ،مارگاٹ ،ڈیگاری ،قلات ،کول ، پیر عمر ،زڑخو ،کلی محمد شہی اور کوئٹہ کی مشرقی پہاڑی کے پیچھے جو بھی بلوچ علاقے ہیں وہاں مردم شماری اور خانہ شماری کا عمل اب تک شروع نہیں کیا گیا ،خدشہ ہے کہ کوئٹہ کے بیشتر بلوچ علاقوں کو اسی طریقے سے نظرانداز کیاجارہاہے اور یہ کہاجارہاہے کہ مردم شماری کے دوسرے فیز میں ان علاقوں کو شامل کیاجائیگا لیکن بلوچ علاقوں میں مردم شماری وخانہ شماری کے عمل میں سست روی قابل مذمت ہے ایسا دکھائی دیتاہے کہ مردم شماری اور خانہ شماری میں ہمیں پیچھے رکھنے کی سازش کی جارہی ہے لیکن ہم واضح کردینا چاہتے ہیں کہ ہم اس حوالے سے خاموش نہیں رہیں گے ،کوئٹہ انتظامیہ کے ارباب اختیار کی ذمہ داری ہے کہ سریاب کے بیشتر اور درجہ بالا علاقوں میں مردم شماری وخانہ شماری کے عمل کو شروع کرنے بعد ان علاقوں میں اسٹاف کی کمی دیکھنے میں آتی ہے اور جوبلاکس بنائے گئے ہیں وہ بہت بڑے ہیں چارج ون جو سینکڑوں بلاکوں پر مشتمل ہے انہیں تقسیم کیاجائے تاکہ بروقت مردم وخانہ شماری کے عمل کومکمل کیاجاسکے ،بیان میں کہاگیاکہ اسی طرح آواران ،کوہلو ،ڈیرہ بگٹی ،مکران کے بیشتر علاقے کے بلوچ آئی ڈی پیز کو بھی مردم وخانہ شماری کا حصہ بنایاجائے اور کوئٹہ سمیت بلوچستان کے پشتون اضلاع میں حکمران واضح طورپر یہ پرچا ر کررہے ہیں اب تو مسجدوں بھی یہ اعلانات کررہے ہیں کہ افغان مہاجرین اپنے کو پاکستانی شمار کرے جو کسی بھی صورت درست اقدام نہیں کیونکہ بلوچستان ہائی کورٹ کے معزز عدالت کے فیصلے کے بعد حکمران اورا تنظامیہ اس کے پابند ہوچکے ہیں کہ افغان مہاجرین کو مردم شماری سے دور رکھاجائے پارٹی نے آئینی پٹیشن دائر کی تھی اس کا فیصلہ ہمارے حق میں ہوا ،بی این پی کے جو خدشات اور تحفظات تھے افغان مہاجرین کو دوررکھنے اور بلوچ آئی ڈی پیز کو شامل کرنے کے حوالے سے تھی ،بیان میں کہاگیاکہ ہم کوئٹہ سمیت بلوچستان کی پشتون اضلاع میں جو لاکھوں کی تعداد میں افغان مہاجرین ہمارے بھائی ہیں ہم ان سے بھی اپیل کرتے ہیں کہ وہ اپنے کو پاکستانی شمار نہ کرے ،چند جماعتیں اپنی گروہی سیاسی مفادات کی خاطر انہیں استعمال کرناچاہتے ہیں جو کسی بھی صورت درست نہیں ہماری بھی کوشش رہی ہے کہ افغان مہاجرین باعزت طریقے سے اپنے وطن واپس جائیں جب تک یہ بلوچستان میں آباد ہے ہم نے ہمیشہ انہیں قدر ومنزلت کی نگاہ سے دیکھاہے اب ان پر اخلاقی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ مردم شماری سے دور رہے ۔