|

وقتِ اشاعت :   April 22 – 2017

سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ کا فیصلہ آگیا ۔ فیصلہ میں تین ججوں نے وزیراعظم کو نا اہل قرار نہیں دیا اور نہ ہی مکمل طورپر بری کیا اور ساتھ ہی جے آئی ٹی تشکیل دینے کا حکم دیا کہ اس کو سات دنوں میں بنایا جائے اور یہ 60دنوں میں ان معاملات کی تفتیش کرکے رپورٹ سپریم کورٹ کو پیش کرے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ابھی حتمی فیصلہ نہیں آیا ہے منی لانڈرنگ کا الزام بدستور موجود ہے ۔ جو کچھ شواہد وزیراعظم اور ان کی اولاد نے پیش کیے وہ قابل قبول نہیں سمجھے گئے اس لیے وزیراعظم اور ان کے بچوں کو بھی یہ حکم دیا گیا ہے کہ وہ جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہوں ۔اور اتنی بڑی دولت کی منتقلی کا ذریعہ بتائیں کہ یہ دولت لندن کیسے پہنچی ،اس لیے وزیراعظم اور اس کا خاندان ابھی تک انصاف کے کٹہرے میں موجود ہیں ۔ البتہ وزیراعظم کو تین ججوں نے رعایت دی وہ بھی ایک مختصر مدت کے لیے کہ وہ نا اہل نہیں ہیں ۔ جبکہ دو ججوں نے ان کو نا اہل قرار دے دیا ہے ۔ اب حکومت ان سرکاری اداروں میں سے نمائندے نامزد کرے گی جبکہ فوج اپنا نمائندہ نامزد کرے گی۔ یہ عمل سات دنوں میں مکمل ہونا ہے اور اس کا فیصلہ بھی ساٹھ دنوں میں سپریم کورٹ کے سامنے پیش ہونا ہے یہ فیصلہ دینے کے بعد پانچ رکنی عدالت تحلیل ہوگئی اور اب سپریم کورٹ کا نیا بنچ جے آئی ٹی کی رپورٹ پر فیصلہ صاد کرے گا۔ پورے فیصلے میں درخواست گزاروں اور ان کے وکلاء کے رائے کو زیادہ اہمیت دی گئی ہے اور فیصلے میں بھی ان معاملات کو اجاگر کیا گیا ہے جس کا واضح اشارہ یہ ہے کہ وزیراعظم صادق اور امین نہیں رہے ۔اس فیصلے کی تشریح مختلف انداز میں کی جارہی ہے حکومتی پارٹی صرف اس بات پر خوش ہے اور جشن منارہی ہے کہ وزیراعظم نواز شریف کو اکثریتی ججوں نے نا اہل قرار نہیں دیا جبکہ اپوزیشن اور حزب اختلاف کی پارٹیاں اس کی یہ تشریح کررہی ہیں کہ سپریم کورٹ نے وزیراعظم پر فرد جرم عائد کردیا ہے اور ساتھ ہی تحقیقاتی کمیٹی بنانے کا حکم بھی جاری کردیا اور وزیراعظم اور خاندان کے دیگر افراد کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہوں اور یہ بتائیں کہ اتنی بڑی رقم کہاں سے آئی ؟ آمدنی کا ذریعہ کیاتھا یہ دولت قطر ‘ سعودی عرب اور دبئی سے ہوتی ہوئی برطانیہ کیسے پہنچی ؟ تاہم سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے بعد بے یقینی کی صورت حال کا خاتمہ ہوگیا ہے ۔ نواز شریف بدستور وزیراعظم ہیں ۔ اسٹاک ایکسچینج میں زبردست تیزی آئی ہے کیونکہ ایک تاجر کی حکومت بر قرار رکھی گئی ہے اس لیے حکمران جماعت کے لوگ مٹھائیاں تقسیم کررہے ہیں جبکہ اپوزیشن کے رہنماء خصوصاً آصف علی زرداری اور عمران خان نے وزیراعظم سے استعفیٰ کا مطالبہ کیا ہے کیونکہ عدالت نے ان پر فرد جرم عائد کردی ہے اور نہ ہی وزیراعظم اور اس کے خاندان کے افراد کو مکمل طورپر بری کردیا ہے۔ حکمران جماعت اور اپوزیشن کے موقف میں فرق ہے، تضاد ہے جو آگے چل کر زیادہ کشیدگی کا باعث بن سکتی ہے۔ اپوزیشن پارٹیاں کسی بھی وقت سڑکوں پر آسکتی ہیں اور حکومت پر دباؤ بڑھا سکتی ہیں کہ وزیراعظم کے اقتدارمیں رہنے کا کوئی جواز باقی نہیں رہا اس لیے وہ استعفیٰ دیں ،اس نکتہ پر سیاسی پارٹیوں کی عوامی رابطہ مہم نہ صرف شروع ہوگی بلکہ ملک کی سیاست میں زیادہ گرمی پیدا کرے گی ۔ اس میں ممکن ہے کہ دوبارہ سیاسی صف بندی ہو اور پی پی پی اور تحریک انصاف مشترکہ لائحہ عمل اپنائیں ۔