|

وقتِ اشاعت :   April 25 – 2017

ایف سی کے ایک اہلکار نے موٹر سائیکل سواروں پر اس وقت فائر کھول دیا جب انہوں نے چیک پوسٹ پر اپنی موٹر سائیکل نہیں روکی اور گزر گئے ۔ ڈیوٹی پر موجوداسلحہ بردار سپاہی نے اپنے اختیارات استعمال کرتے ہوئے فائر کھول دیاجس سے دونوں موٹر سائیکل سوار گولیاں لگنے سے زخمی ہوئے ۔ فائرنگ سے ایک دوسرا راہگیر بھی زخمی ہوگیا ۔ دونوں موٹر سائیکل سوارافراد کا تعلق قانون نافذ کرنے والے ایک ادارے سے تعلق ہے ۔معلوم ہوتا ہے کہ دونوں افراد اس گھمنڈ میں تھے کہ ان کو چیک پوسٹ پر بغیر اپنی شناخت کرائے گزرنے کی اجازت ہے اگر چیک پوسٹ پر وہ اپنی شناخت کرا لیتے تو نہ ان کی تلاشی ہوتی اور نہ ہی ان کو روکا جاتااور نہ سپاہی ان پر گولی چلانے پر مجبور ہوتا اور نہ ہی ایک بے گناہ راہگیر زخمی ہوتا۔ مگر یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ سپاہی کو راہ گزرنے والوں پر یا معمولی جرم پر گولی چلانے کی اجازت کس نے دی ۔ یہ خطر ناک بات ہے کہ ڈیوٹی پر موجود ایک عام سپاہی چھوٹی سی حکم عدولی پر گولیاں چلاتا پھرے اورمعصوم لوگوں کی زندگی مفلوج کردے ۔ اول تو سپاہی کو افسر کی احکامات کے بغیر شہری ڈیوٹی کے دوران گولیاں چلانے اور راہ گیروں سے ناروا سلوک کرنے کی اجازت نہیں ہونی چائیے ۔ صرف تلاشی اس شخص کی ضرور کی جائے جس پر شک ہو ۔ اول تو شہری علاقوں میں چیک پوسٹوں کی ضرورت ہی نہیں ہے ۔ لاکھوں انسانوں میں ایک دہشت گرد ہے تو لاکھوں انسانوں کو تنگ نہ کیاجائے بلکہ صرف اطلاعات پر مشکوک افراد کے خلاف کارروائی کی جائے آج تک شہری علاقوں میں چیک پوسٹوں پر ایک پستول تک بر آمد نہیں ہوا، نہ کوئی بم پکڑا گیا ۔ دوسرے الفاظ میں شہری علاقوں میں چیک پوسٹوں کے قیام کا مقصد عوام الناس کو ہراساں کرنا ‘ ٹریفک کی روانی میں سرکاری طورپر خلل ڈالنا ہے ۔ اس لیے ضروری ہے کہ شہری علاقوں سے تمام چیک پوسٹوں کو عوام کی راحت کی خاطر ہٹادیاجائے۔کوئٹہ شہر میں فائرنگ کے واقع کی تحقیقات کی جائے اور سپاہی کو گولیاں چلانے اور معصوم انسانوں کو زخمی کرنے کے جرم میں سخت سے سخت سزا دی جائے ۔ آئندہ افسران کے احکامات کے بغیر سپاہی راہ گزرنے والوں پر فائرنگ نہ کریں ۔ اگر ان پر حملہ ہو تو جوابی حملہ کرنا اور فائرنگ کرنا ان کا بنیادی حق ہے کسی بھی سپاہی کو Triger Happyنہیں ہونا چائیے ۔ اور اس رحجان کی سختی سے حوصلہ شکنی کرنی چائیے ۔ ہم سب اس ملک میں برابر کے شہری ہیں، ہم سب کے حقوق برابر ہیں ۔ وردی پہننے کے بعد ان کے حقوق میں زیادہ اضافہ نہیں ہوتا، حکومت ان تمام باتوں کی ذمہ دار ہے ۔ اس واقعے میں زخمی ہونے والے معصوم راہگیر کا نہ صرف علاج کیا جائے ‘ بلکہ اس کو امداد بھی فراہم کی جائے ۔ حکومت وقت تمام اداروں پر یکساں کنٹرول رکھے تاکہ اس قسم کے واقعات آئندہ رونما نہ ہوں ۔ لوگوں کو بھی چائیے کہ وہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ تعاون کریں تاکہ کسی بھی خراب صورتحال سے بچا جاسکے اور ہر ایک کی زندگی محفوظ رہے خصوصاً ان شہریوں کی جو معصوم ہیں اور انہوں نے کسی قانون کی خلاف ورزی نہیں کی ۔ سیکورٹی افواج صرف انسانوں کی تحفظ کے لئے ہیں ان کا بنیادی مقصد اور قیام ، ریاست پاکستان اور اس کے عوام کا تحفظ ہے، ان کے لئے مشکلات پیدا کرنا نہیں ہے ۔