|

وقتِ اشاعت :   May 31 – 2017

بلوچی میں ایک کہاوت مشہور ہے ’’لوگ ھمودءَ سْچیت کہ آسے پراِنت‘‘ یعنی کہ گھر وہاں جلتا ہے جہاں آگ لگی ہو۔ویسے تو آج کل سوشل میڈیامیں روزآپ کو خواتین و بچوں کی تصویریں نظرآتی ہیں جو مستقبل کے سنگاپور کے کسی سڑک کو بلاک کرکے اپنے ہانڈو’’مٹکا‘‘ لیئے ایک بوند پانی کے لیئے چیخ و پکارکر رہے ہیں لیکن کسی چیز کو صرف تصویروں میں دیکھنے اور سوشل میڈیا پر اظہار ہمدردی کرنے سے آپ اس چیز کے اندرکی داستان کو کبھی سمجھ نہ پائیں گے۔

آج کل فیس بْک میں تواتر سے’’ گوادر پیاسا ہے‘‘ جیسے عنوانات سے پوسٹ نظر آتے ہیں لیکن سْنے گا کون۔۔۔۔۔!!ہماری خواتین حسب معمول اکیسویں صدی کی اس جدید دور میں پانی مانگ رہی ہیں اور وہ بھی سمندر کنارے۔۔۔۔۔ ہیں نہ عجیب بات۔۔۔۔۔۔!!بچپن میں اگر کسی کا ایکسیڈنٹ ہوجاتا یا خدانخواستہ کوئی حادثہ پیش آتا تو ہمارے بڑے کہتے تھے کہ اللہ بہتر جانتا ہے ۔

اب اگر گوادر میں پیاس کی حاکمیت ہے تو ظاہر سی بات ہے کہ اللہ ہی کی شان ہے کیونکہ ہمارے سربراہان تو واٹر ٹینکوں میں پیسوں کو چھپانے میں مصروف ہیں ان کو عوام کا درد ہی نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔ایک روز پہلے جب آل پارٹیز گوادر پانی اور بجلی کی عدم فراہمی پر ملا موسیٰ چوک پر دھرنا دے رہا تھا اور اس دھرنے سے کوئی عوامی نمائندہ خطاب کرتے ہوئے حسب روایت گوادر کی پسماندگی کی ذمہ داری وفاق کے کندھوں پر ڈال رہا تھا تو قریب بیٹھے بوڑھی خاتون جو تماشہ دیکھ رہی تھی نے کتنی معصومیت سے بس یہی کہہ سکی کہ ’’یہ صاحب جو خطاب کررہا ہے ہمارا گھر اس کے گھر کے پیچھے واقع ہے لیکن ایک مہینے سے گھر میں پانی نہیں ہے ‘‘بیچاری خاتون۔۔۔۔۔۔تمہاری سنے گا کون۔۔۔۔!!

کاش سوشل میڈیا میں شور مچانے والوں کو یہ بھی پتہ ہوتا کہ بلوچ معاشرے میں خواتین کا گھر سے باہر نکلنا مناسب نہیں سمجھا جاتایہ جو سڑکوں پر نکلے ہیں ان کی کوئی مجبوری ہے۔۔۔۔۔۔سوشل میڈیا پر دعویٰ کرنے والے لوگ اپنے آپ کو گوادری محسوس کرکے اپنی ماؤں کو کسی سڑک پر پانی مانگتے دیکھیں تو تب پتہ چلے گا کہ پیاس کتنی زورآور ہے۔گوادر کے پیاسے بچوں کی داستان کو وہ سمجھ سکتا ہے جو 50ڈگری سینٹی گریڈ کی آگ برسانے والی گرمی میں کسی ریگستان میں بغیر پانی کے سفر کررہا ہو۔