|

وقتِ اشاعت :   June 9 – 2017

گرمی کچھ بڑھ رہی تھی, بزگل کا گذر ابھی نہیں ہورہا تھا, اِلّہ مِسکان خراسان کا گولوّ کر کے آچکا تھا ۔ بابا نے خلق میں کہلوا بھیجا کہ کراہی کی تیاری کر لو بزگل صبح روانہ ہوگا۔

بادو ،مامد اور نور جان، بزگل کیساتھ ہونگے شوہان نبو اور نودان بھی ساتھ ہونگے۔۔ باہر اوربگ کو بھی ہمراہ لے چلو بابا کے حکم پہ سب پر جیسے ایمرجنسی نافذ ہوگئی۔

میں بابا کے حکم کا منتظر اس دعا کیساتھ کہ یا شیرجب (واضح رہے کہ شیر جب ہمارا مرشد ہے )بزگل کے ساتھ نہیں بھیجے، بابا نے رعب دار آواز میں مجھے آواز دی کہ چاکر تم آلم کے ساتھ ہماری ہمراہی میں رہو گے۔

جانے اپنے اِلّہ مِسکان اور باقی سب سے کہو کہ کل تیاری ہے پرسوں کاروان نکلے گا۔۔ میں خوشی سے جیسے دیوانہ ہوئے جارہا تھا۔ میں تو جیسے ہوایں میں تھا, بولان کے ول ول کو خیالوں میں لائے ان حسین مناظر کی تصویر کشی کرکے مدہوش ہورہا تھا۔ کیوں کہ میری گراں ناز کو میر ے ساتھ ہونا تھا،تہذیب کا سفر ہونے جارہا تھا۔۔۔ رقص کو تقدس بخشنے جارہے تھے ہم سنگیت کو سراور رنگوں کورنگ دینے جارہے تھے ہم۔

میں گران ناز کو بولان کی خوبصورت بل کھاتی گھاٹیوں میں اونٹوں کے درمیان چلتے اور ہواؤں سے اس کے بکھرتے بال دیکھنے کیلئے جیسے پاگل ہورہا تھا، میں بھاگتے بھاگتے الہ مسکان کی خلق تک پہنچا،مجھے پتہ تھا الہ مسکان اس وقت بکریوں کے بچوں(زہ) کو چرانے خلق سے دور (زرت کی ناڑ) جواری کی فصل میں ہونگے مگر مجھے تو دیدارِ نازو کھینچے لے جارہا تھا۔

میں نے گدان کے باہر تاتی ماہ گنج کو دیکھ کر پوچھا تاتی الّہ مسکان کہاں ہے،تاتی نے کہا آپ کا چاچا بکریوں کے بچے (زہ) کو چَرانے لے گیا ہے، تاتی مجھے الّہ مسکان کے بارے میں بتارہی تھی اور میری نظریں نازو کو ڈھونڈرہی تھیں،میں مایوس ہوا نازو نظر نہیں آرہی تھی، میں وہاں سے چل پڑا الّہ مسکان کی طرف اور اسے بابا کا پیغام پہنچایا۔

واپس خلق آکر اپنا چنگ لیکر دور ایک ٹیلے پر بیٹھ کر موسم کی رنگینی دیکھنے لگا، سورج ڈھلنے جارہاتھا،اسکی سرخی مائل روشنی ہرطرف جیسے رنگ بکھیر رہی تھی،میں سوچوں میں گم تھا۔۔نظروں میں بولان تھا۔

بولان میرا مقدس مکہ،جو میری (ہانی )نازو کو اپنے حسین بل کھاتے راستوں میں اپنے ماتھے کا جھومر بنانے جارہا تھا، ہائے اللہ کیا منظر ہوگا جب ہم بولان سے گذریں گے۔

اس ہتم میں ان حسین مناظر کو سوچتے سوچتے کب چنگ میرے ہونٹوں سے لگ کر گیت بکھیرنے لگا اور میں مدہوشی میں گم ہوکر خیالوں کی دنیامیں چلا گیا پتہ نہیں چلا۔۔۔ کل کو تیاری تھی بزگل نکل چکا تھا۔۔

ہم تیاریوں میں تھے کہ کل ہمیں بھی نکلنا ہے، بابا نے مجھے زادِ رہ ( توشہ) کیلئے ڈھاڈر بھیجا تاکہ میں شہر سے سامان لے آو، میں جب ڈھاڈر پہنچا تو خریداری کے بعد ایک دکان گیا اپنی نازو کیلئے کچھ لینے جو میں نے اسے بولان میں دینا تھا تاکہ وہ پہن کر اس کارواں کی خوبصور تی کو امر کردے۔ میں نے اس کے لئے پازیب لی, چوڑی لی اور ایک ہار (کنڈی ) بھی خرید لیا۔

میری نازو کتنی خوبصورت لگے گی جب وہ یہ پہنے بولان میں اونٹوں کے درمیان ہنستی بشخندہ ہوتی مجھے دیکھے گی یہ سوچتے سوچتے میں نے ڈھاڈر سے خلق کا طویل سفر کیسے طے کیا پتہ ہی نہیں چلا۔

خلق پہنچتے ہی میں نے زادی جو میر ی چھوٹی بہن ہے اسے یہ چیزیں دیں تا کہ وہ یہ چیزیں نازو کو دے اور اسے کہے کے کل یہ پہن لے کہ سفر پہ نکلنا ہے،رات بھر میں نے کروٹ بدلتے گذاری، رات کی تاریکی سے صبح کی پھوٹتی سرخ کرنوں کیساتھ ہم نے ہڑپ چائے (گڑوالی چائے) پی اور رختِ سفر باندھ لیا۔

اب تک بابا اونٹو ں کے مہاری کو لیکر آگے اور میں اس کے پیچھے تھا الہ مسکان والوں کے اونٹ ہمارے پیچھے کچھ فاصلے پر تھے میں باربار پیچھے مڑ کر دیکھتا کہ نازو کو دور سے دیکھ سکوں مگر کچھ فاصلہ ہونے کی وجہ سے وہ نظر نہیں آرہی تھی۔

ہم جو نہی دربی سے آگے نکلے کوندالی کی بل کھاتی ندی میں پہنچے،جہاں گذرتا پانی جیسے تاریخ میں سانس لیتی تہذیبوں کی پیاس کو بجھاتے ہوئے اپنے ہر آنے والے عاشق کیلئے بانہیں پھیلائے ہوئے تھا۔

جہاں ہوا قدیم سربکھیر رہی تھی،ہم تھوڑی دیر کے لئیے رکے تاکہ خواہ/ /مشکیزہ پانی سے بھر لیں،میں اس انتظار میں تھا کہ الہ مسکان والے پہنچ جائیں تاکہ ہم ساتھ سفر کریں۔

اتنے میں بابا نے مہاری کے رخت میں بندھا چا دان اتار کر کہا چاکر جلد اس میں چائے بنا لو ایک ایک پیالی چائے پی کر نکلتے ہیں،میں چائے بنانے لگا ایسے میں بابا نے کہا وہ دیکھو مسکان پہنچ گیا خیر سے میں نے دیکھا نازو مشکیزہ لیکر پانی بھرنے لگی،الہ مسکان کا ایک ہی بیٹا تھا وہ بزگل کے ساتھ پہلے ہی ہم سے آگے آگے جارہا تھا۔

بابا نے مجھے آواز دی چاکر گراں ناز سے مشکیزہ لے کر اونٹ پر لاد دو، میں نازو کے پاس گیا اور کہا نازو لاؤمجھے دو میں مشکیزہ اٹھا کر اونٹ کے اوپر رکھ دوں،وہ ناز سے اٹھ کر دور کھڑی اپنا آنچل سمیٹ کر مجھے ہنستی ہوئی آنکھوں سے دیکھنے لگی۔

میں اسکی انہی اداوں کیلئے تو زندہ تھا۔۔انہی کی تو خیالی عبادت کرتا تھا۔۔میں نے مشکیزہ لیکر اونٹ پر رخت کے ساتھ باندھ دیا،میں نے دیکھا نازو کے پاؤں پانی میں ننگے تھے۔

آنسو کی طرح پاک مقدس بولان کے بہتے پانی میں نازو کے نازک پیروں میں پہنے پائل کا حسین منظر بولان کی وادی کوندلانی میں میرے لئے جنت کا سامان بنا رہے تھے، بابا نے آواز دی چاکر چلو دیر ہوگئی رات کرتہ میں رکنا ہے سفر طویل ہے۔

میں دوڑا دوڑا بابا کے مہاری اونٹ کیساتھ ہو لیا،بہار کا موسم تھا۔۔۔سفر تھا،ہم سفر بھی ساتھ تھا۔۔۔بولان تھا۔۔مقدس مکہ تھا میرااسکے بیچ میری نازو ان حسین وادیوں کی خوبصورتی کیساتھ جیسے اسکی ہواؤں کیساتھ اسکے رنگوں کیساتھ باتیں کررہی تھی۔

میں پلٹتادیکھتابولان دِکھتا میری نازو دِکھتی, خوبصورتی دِکھتی۔۔رنگ دِکھتے۔۔۔بولان معطر تھا، نازو کے پاؤں جیسے بولان کی ریت پر پڑتے تب لگتا دونوں ایک دوسرے کی زیارت کرتے بوسہ لے رہے ہوں۔

بولان کی ہوا ایسے جیسے نازو کی زلفوں سے شرارت کرتی انہیں چھیڑرہی تھی،ہواؤں میں بِکھرے بال جب رخسارِ نازو کو چھوتے تو لگتا جیسے بولان کو بادلوں نے اپنی بانہوں میں بھر لیا ہو، نازو مجھے دیکھتی اور بشخندہ ہوتی تو لگتا بولان ہنس رہا ہے اپنے عاشق بالاچ کے ساتھ۔

آج چاکر مدہوش تھا،وہ کارواں سے آگے نکل چکا تھا دور جاکر ایک ٹیلے پر بیٹھ کر کارواں کا حسین منظر دیکھتا،اپنی نازو کو دیکھتا۔۔بولان دیکھتا۔۔۔خود سے کہتا۔۔ہم کلام ہوتا چاکر دیکھو شداد کی جنت بھی شرما رہی ہے میرے بولان کے آج کے ان حسین مناظر پر۔۔۔ میرے اندر یہ خیال سفر کر رہاتھا کہ بولان کا حسن جاننے کے لئیے, اپنی زمین کے رنگوں کی پرستش تک پہنچنے کے لئیے، آخر کیوں ایک عورت کی ضرورت ہے؟ اسکے عشق سے گزرنا کیوں ضروری ہے؟ اور اس عشق کے سفر میں عورت زمین کیسے بن جاتی ہے؟

آلم کرتہ خیر پر پہنچا رات ہوئی تھوڑی سردی نے آن گھیرا،بابا نے کہا چاکر ایک آگ جلاؤ بڑی سی کچھ کھانے کیلئے بنانا ہے اور تھوڑی سردی بھی ہے ہاتھو ں کو گرمانا ہے۔میں نے ایک کری کے درخت سے لکڑیا ں لیں اور آگ جلائی۔۔۔ بابا نے کہا کْرنو بنانا ہے چاکر تم چائے بناو۔۔تھوڑی دیر میں کرنو تیار ہوا اور چائے بھی۔

ہم کچھ کھا کے آگ کے اردگرد بیٹھے اپنی تھکان مٹا رہے تھے، میں اِلّہ مسکان اور بابا آگ کے گرد بیٹھے تھے،عورتیں دوسری جانب بیٹھی تھکان مٹانے کے جتن کر رہی تھیں،ایسے میں الہ مسکان اور بابا نے کہا ہم سونے جارہے ہیں چاکر تم جاگتے رہو آدھی رات کو مجھے اٹھانا پھر تم سو جانا، میں نے حکم کی بجاآوری میں سر ہلایا۔

اب میں آگ کے ایک طرف بیٹھا بولان کی سرد رات کی دلگیر تاریکی میں کچھ دور بیٹھی حسن کی اس دیوی کی زیارت کررہا تھا، مدہوشی تھی حسن کہ نشہ اترنے نہیں دے رہی تھی،تاریکی میں جیسے چاند بادلوں سے نکل رہا ہو،ایسے میں دیکھا نازو اور زادی آگ کے قریب دوسری طرف آکر بیٹھ گئیں، منظر ہی بدل گیا،فضاء ہی بدل گئی۔۔

آگ کے الاؤمیں نازو کا رخسار جیسے رنگوں کے حسین امتزاج میں بنایا گیا وہ شاہکار ہو جس میں موجود رنگ سانس لیتے ہوں۔۔۔محو رقص ہوں۔۔۔آگ کے شعلے نازو کی آمد پر جیسے رقص کررہے تھے۔۔

تاریکی اور آگ کی سرخی میں نازو کا چہرہ اور گہری آنکھیں روح کو جنھجوڑنے والے احساس کا منظر پیش کررہی تھیں۔۔۔۔ دوسرا دن تھا ہم بی بی نانی سے ہوتے ہوئے آگے گیشتری کے مقام پر پہنچے۔۔۔۔۔ایک طرف آب گم کا خیر دوسری طرف گیشتری کے حسین پہاڑ اور ہم بولان کے دامن میں مچھ شہر کے قریب سے ہوتے ہوئے گذررہے تھے۔۔۔کارواں تھا۔۔۔اونٹوں کی قطار تھی۔۔۔ بابا کا مہاری تھا جو رہنماء4 بنے بولان کے عظیم دروں میں سینہ تانے بڑھ رہا تھا۔

اونٹوں پر لادہ سامان اور انکے اوپر بکری کے چھوٹے بچے اور مرغیاں۔۔۔کارواں تھا۔۔۔ نقل مکانی تھی۔۔۔ مگر اجڑے لوگوں کی نہیں۔۔۔ دھتکارے گئے لوگوں کی نہیں آفت زدہ نہیں تھے یہ بھاگے اور پیٹھ دکھانے والوں کا لشکر نہیں تھا یہ نہ ہی دیار غیار میں جانے والوں کا قافلہ تھا یہ تو اپنے وطن سے مانوس, بولان کے حسن کا زیور تھے۔

یہ پیار سے بھر پور, زندگی کے شعور سے آشنا فطرت کے وہ مظاہر ہیں جو خود میں فطرت رکھتے ہیں، کارواں میں زندگی ہے۔۔۔ امیدیں ہیں۔۔۔ چھوڑنے والے حسین خیال اور پانے والی بے پنا امیدیں انکے چہروں پر مسکراہٹ کی صورت میں موجود رہتی ہے۔

جہاں ڈیرہ ڈالا وہاں زندگی اپنے حسن بکھیرنے لگتی ہے، جہاں سے چلے وہاں زندگی اپنی حسین یادوں کی تاریخ چھوڑ جاتی ہے،جہاں سے گذرے وہاں زندگی نے ڈیر ے ڈال دئیے۔

یہ کارواں جو وطن کی محبت سے بھر پور فطرت سے آشناء اور خود پر اعتماد کی عظیم انسانی خصلیتں لئے جب بولان میں محوِ سفر رہتا ہے تو یہ محض کارواں نہیں رہتا ارتقا کا سفر ہورہا ہوتا ہے۔۔انسانی بقا کا دھارا ہوتا ہے۔۔اس کارواں میں مکمل زندگی سانسیں لے رہی ہوتی ہے۔۔۔ امیدیں اور عزم کا اظہار ہورہا ہوتا ہے۔۔۔ موسموں کی آمد رنگوں کی بکھرنے اور ان سے لطف اٹھانے کا اعلان ہورہاہوتا ہے۔۔۔ یہ رقص ہے تہذیب کا۔۔یہ حسن ہے انسانی شعور کا۔۔یہ اظہار ہے وطن کے ہر چپّے سے محبت کا۔

ہم بابا دلو کے مزار کے قریب سے گذرے۔۔ میں پرانا مچھ کی جانب نازاں نظروں سے دیکھتے ہوہے مخاطب ہوکر کہنے لگا۔۔ سنو میرے مچ۔۔۔! میں بولان کی خوبصورتی کو ساتھ لئے محوِ سفر ہوں۔۔ میں کْلی کے سینہ سپر پہاڑ کو دیکھے جارہا تھا اور یہ سوچ رہا تھا کہ اس نے ایسے کتنے سفر دیکھے ہونگے۔۔؟ اور ہر سفر کے خوابوں کا عکس بولان نے اپنے سینے میں محفوظ رکھا ہوگا۔

ان پہاڑوں نے اپنے کلیجے میں کتنا درد سنبھال رکھا ہے اور اسکے باوجود پناہ اور محبت ہی بخشتے ہیں۔ کیا اس زمین پر کاروباری افراد، ترقی کے نام پر آنے والے اپنی بقا کے تحفظ کی خاطر، آکر زندگی گذارنے لگیں گے تو وہ اس مٹی کی روح کو جان پائیں گے؟ کیا بولان انہیں پہچانے گا؟ میرے دل سے جیسے کسی کوہسار کی آواز آئی،’ہاں ہم بلا تفریق محبت دیتے ہیں، مگرہم عشق صرف تمہارا ہیں۔

ہمارا سفر, امیدیں , ہتم (بہار) کی تڑپ, خراسان کا مہر, بولان کا عشق لئے (باسن دیر) ہیرونک پہنچے۔۔۔ ہیرونک کے بہتے چشمے کے شہد جیسے میٹھے پانی کا جیسے میں برسوں سے پیاسا تھا۔۔۔ ہمارا کارواں رکا میں نے اونٹوں کو پانی پلایا بابا نے کہا چاکر زیادہ دیرنہیں رکنا مشکیزے بھر لو ہمیں ’ہرک’ کے خیر پر ہنکین بنانی ہے۔۔۔ ہم نے ہرک خیر پر ہنکین بنانی تھی ڈیرہ ڈالنا تھا۔۔۔

میں نے نظریں اٹھا کر دیکھا تو ’نود گوار’ پہاڑ سینہ تانے کھڑا جیسے ہمیں بغل گِیر کرنے کیلئے پکار رہا ہو۔۔۔نظریں دوسری طرف گئیں تو ساتھ میں شوگ کا پہاڑ جیسے برسوں سے ہمارا منتظر رہا ہو۔۔۔ اودباش کی پہاڑی جیسے ممتا کا مہر لئے آنکھوں میں آنسو بھر ے اپنی آغوش میں لینے کے لئے بے تاب ہو۔۔۔۔ قدم تھے کہ رک نہیں رہے تھے۔

خوشی تھی کی ہماری اوقات پہ نازاں تھی۔۔ہاں ہم عاشقوں کیلئے بولان کا عشق تھا۔۔۔ بولان, بالاچ کا بولان۔۔۔ ہم جلدی سے پانی بھرنے لگے۔۔ میری نظریں نازو کو ڈھونڈ رہی تھیں۔۔۔ ہلکی ہلکی سردی بھی تھی۔۔بادل بھی تھے۔۔۔ہوا (چِرک ) چل رہی تھی۔۔۔ بولان کی سرد ہواہیں جیسے نازو کو چھیڑ رہی تھیں۔

وہ خود کو اپنے آنچل میں (پلویڑ)اوڑھنے کی کوشش کرکے بولان کی ان شرارتی ہواؤں سے جیسے لڑرہی تھی۔۔چشمے کا میٹھا پانی نازو کو چھونے کے بعد جیسے معّطر ہونے لگا۔۔۔ میں اردگرد کے ماحول سے بے خبر نازو کی ادائیں دیکھ رہا تھا۔۔۔بولان دیکھ رہا تھا۔۔بلوچستان دیکھ رہا تھا۔۔۔ عشق تھا یہ۔۔۔ مہر سے کہیں بڑھ کر۔۔۔ نازو بولان تھی یا بولان نازو۔۔۔ میری کائنات سمٹ گئی تھی جیسے۔۔۔ رنگ تھا بکھرا ہر طرف۔۔۔ سر تھے چاروں اور۔۔۔ سنگیت تھا ہواؤں میں۔۔۔ سفر تھا زندگی کا۔۔۔ میں لمحوں میں ہزاروں سال جی رہا تھا۔

ہم باسن دِیر سے روانہ ہوئے تو ہلکی بارش شروع ہوئی۔۔۔ منظر تھا کہ خدا کی خدائی۔۔۔ کائنات کا ہر رنگ جیسے یک جاں ہوکہ سمٹ گئے اس قافلے میں۔۔۔ میں نے مڑ کر دیکھا تو پانی کی بوندیں نازو کی زلفوں سے کھیل کر گرتے ہوئے اس کے قدم بوسی کررہی تھیں۔

یہ بارش نہیں تھی بولان کا میری نازو کو’بخیر’ تھا، بولان اپنا مہر ہم پر برسا رہا تھا،بارش کے قطروں کے باعث جڑی بوٹیوں سے اٹھنے والی خوشبو جیسے فضاء میں منادی تھی ہمارے آنے کی نازو کے آنے کی، ہمارا انگ انگ محو رقص تھا۔

عشق کی وادی میں عاشقوں کا بسیرا ہونے جارہا تھا۔۔۔ خدا کی خدائی مکمل ہونے جارہی تھی،ایکدوسرے کے تعلق میں غرق ہوکر ملنے والا ’قرار’ محبت ہے۔ جیسے بارش ہوتی ہے تو جڑی بوٹیاں مہکنے لگتی ہیں، یہ مہک یہ خوشبو محبت ہے جس پہ ہر انسان ہر جاندار، فطرت کے ہر مظہر کا حق ہے۔

برسات اور جڑی بوٹیاں اس خوشبو کو جنم تو دیتے ہیں پر وہ اس خوشبو کے آقا نہیں ہوتے وہ تو عشق کے سفر میں صرف اپنی حاضری لگاتے ہیں۔ ویسے ہی میں اور میری نازو اپنا حصہ ادا کرنے آئے ہیں۔