|

وقتِ اشاعت :   June 16 – 2017

روزانہ درجنوں شہروں سے پانی کی قلت اور اس کے خلاف احتجاج کی خبریں آرہی ہیں پوری حکومت اور مقامی انتظامیہ بے بس نظر آرہی ہے ، ان کی سمجھ میں کچھ نہیں آرہا ہے کہ کیا کیا جائے ۔ پانی کی قلت ایک مسلمہ حقیقت ہے اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا ۔

گزشتہ چالیس سالوں میں منتخب نمائندوں کو ایم پی اے فنڈکے نام پر بے شمارپیسے ملے لیکن وہ اپنے ہی ووٹروں کو آج تک پینے کا پانی فراہم نہیں کر سکے ۔بڑی تعداد میں جعلی اسکیمیں بنائی گئیں اور ان پر اربوں روپے خرچ ہوئے لیکن سینکڑوں شہر اور قصبات پینے کے پانی سے آج بھی محروم ہیں ۔

گوادر ہی سب سے اہم ترین مثال ہے جوپورے ملک کا مشہور ترین قابل فخر شہر اور بندر گاہ ہے لیکن یہاں کے مکین بھی پینے کے پانی سے محروم ہیں جب حکومت نے 2002ء میں گوادر پورٹ کی تعمیر کا فیصلہ کیا تھا تو اس وقت اس بات کی منصوبہ بندی نہیں کی گئی کہ اس شہر میں امنڈنے والی آبادی اور قائم ہونے والے صنعتی اور تجارتی اداروں کو اور خصوصاً گوادر بندر گاہ پر لنگر انداز ہونے والے جہازوں کو پانی کہاں سے ملے گا۔

اس بات سے یہ ثابت ہوا کہ بہ حالت مجبوری جنرل پرویزمشرف کے حکم پر گوادر بندر گاہ کا پہلا فیز تعمیر ہوا تھا ورنہ ریاست پاکستان یا حکمرانوں کو کسی قسم کی دل چسپی نہیں ہے کہ ایک بہت بڑی اور کراچی سے بھی بڑی بند رگاہ تعمیر کی جائے ۔ اس لیے دوسرے فیز کی تعمیرات ابھی تک منصوبہ بندی کمیشن کے سرد خانے میں ہیں۔

یہ جتنی بڑی اسکیم ہے اتنی ہی کم رقم اس کی ترقی پر گزشتہ پندرہ سالوں میں خرچ ہورہی ہے ۔ شاید حکمران بادل نخواستہ یہ اخراجات کررہے ہیں ،وہ گوادر پورٹ کی ضرورت محسوس نہیں کررہے ، ممکن ہے کہ اس کے سیاسی اور دیگر وجوہات ہوں جن کا علم حکمرانوں کو ہوگا اور ضرورت پڑنے پر وہی اس کوظاہر کریں گے لیکن عوام الناس کو ابھی تک یہ راز معلوم نہیں ہے اس لیے گوادر کے پانی کا مسئلہ حل نہیں ہوا۔

کئی بار بارشیں اس علاقے میں ہوئیں حکومت کو یہ توفیق نہیں ہوئی کہ آکڑہ کورڈیم کی بحالی کاکام کرے یا اس کی تعمیر نو کا کام کیاجائے تاکہ گوادر کے عوام کوپانی کی قلت کا سامنا نہ کرنا پڑے ان کو معمول کے مطابق پینے کا پانی ملتارہے ۔

ڈیم کے اسٹوریج ایریا میں مٹی اور ریت نکالی جاتی تو پانی کو ذخیرہ کرنے کی گنجائش کو بڑھایا جاسکتا تھا جس سے پانی کی قلت کا اتنا بڑا مسئلہ کھڑ انہیں ہوتا۔

حکومت کو گوادر بندر گاہ بنانے اور اس کو جلد سے جلد فعال بنانے میں کوئی دلچسپی نظر نہیں آرہی اس کا ثبوت گوادر پورٹ اور گوادر شہر کی ترقی کیلئے گزشتہ پندر سالوں میں مختص رقم ہے ۔

گوادر کی قریب ترین بندر گاہ چاہ بہار ہے جہاں پانی ‘ بجلی اور گیس کی کوئی قلت نہیں ایران نے چاہ بہار پورٹ کے لئے پانی کی فراہمی کا انتظام کررکھا ہے ۔

اس لیے چاہ بہار بندر گاہ اور اسکے صنعتی اور تجارتی علاقے میں دنیا بھر سے 54ارب ڈالر کی سرمایہ کاری ہورہی ہے دوسری طرف آج تک کسی سرمایہ کار نے گوادر آنے کی خواہش ظاہر نہیں کی ۔

حقیقت تو یہ ہے کہ گوادر کو ترقی دینے کیلئے پانی کی فراہمی کو یقینی بنانا ہوگا نہ صرف لوگوں کے پینے اور گھریلو استعمال کے لئے بلکہ صنعتی ‘ تجارتی اور جہاز رانی کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے ۔

صرف مکران کے خطے میں چھوٹے بڑے درمیانے درجے کے370دریا بہتے ہیں اگر مناسب مقامات پر ڈیم بنائے جائیں تو پورے خطے میں پانی کا مسئلہ نہ صرف حل ہوجائے گا بلکہ اس سے مکران کی زرعی ‘ صنعتی اورتجارتی ترقی کی راہیں کھل جائیں گی۔

اس لیے ضروری ہے کہ حکومت چھوٹے، بڑے اور درمیانے درجے کے دریاؤں پر بند اور پانی کے ذخائر تعمیر کرے تاکہ پانی کی قلت کا مقابلہ کیاجا سکے ۔ مکران سے ملحقہ ایرانی بلوچستان میں پانی کی قلت کا تصور نہیں ہے ۔

لوگوں کی بنیادی ضروریات اچھی منصوبہ بندی کے تحت پوری کی جارہی ہیں ۔ پورے ایرانی بلوچستان میں گندے پانی کو ددوبارہ زرعی اور دوسرے مقاصد کے لئے استعمال میں لایا جارہا ہے ، ہمیں بھی انہی خطوط پر سوچنا ہوگا۔