|

وقتِ اشاعت :   June 17 – 2017

بلوچستان کی حکومت نے اپنی دیرینہ روایات کو برقرار رکھا اور روایتی سالانہ بجٹ پیش کیا ۔اس میں وہی پی ایس ڈی پی کے جاری اور نئے منصوبوں کا ذکر وزراء اور اراکین اسمبلی کی دلچسپی کا باعث رہے ۔

اخبارات میں یہ خبر بھی چھپی کہ وزیر داخلہ اور ایڈیشنل چیف سیکرٹری ترقیات کے درمیان تلخ جملوں کا تبادلہ ہوا کیونکہ وزیر داخلہ کو یہ برملا شکایت تھی کہ ڈیرہ بگٹی کی ترقیاتی اسکیموں کو جان بوجھ کر نظر انداز کیا گیا ۔

تمام حکمرانوں کے لئے زیادہ دلچسپی کا موضوع پی ایس ڈی پی ہی ہے جو سارا سال ایوان میں زیر بحث رہتا ہے ۔البتہ بجٹ کے بعض اچھے پہلو بھی ہیںیعنی بلوچستان بینک کے قیام کے لیے حکومت نے دس ارب روپے مختص کیے ہیں تا کہ صوبے کا اپنا بنک ہو جو سندھ بنک اور پنجاب بنک کی طرز پر تجارتی بنک کا کردار ادا کرے ۔

اس کا بنیادی مقصد دوسرے تجارتی بنکوں سے ہٹ کر دوردراز علاقوں کے لوگوں کو مناسب بینکنگ کی سہولیات کی فراہمی ہونا چائیے، یہ مقامی معیشت کو قرضہ جات فراہم کرکے مضبوط بنائے بلکہ مکمل پیدا وار میں اضافہ ‘ مزید روزگار کی فراہمی کا سبب بن جائے نہ کہ طاقت ور مخصوص مفادات کے لوگوں کی خدمت گزاری کرے ۔

دوسرا اہم مسئلہ چند ایک اسکولوں ‘ اسپتالوں اور سرکاری عمارات میں سولر پاور کا استعمال ہے ۔ وفاقی حکومت نے بلوچستان کے عوام کو مایوس کیا ہے ۔ آئندہ مالی سال کے بجٹ میں کوئی خاطر خواہ رقم نہیں رکھی گئی ہے جس سے پاور ٹرانسمیشن لائن کو بہتر بنایا جائے اور بلوچستان کے لوگوں اور علاقوں کو بجلی فراہم کی جائے۔

آئندہ سال کے وفاقی بجٹ میں بلوچستان میں بجلی کی فراہمی پر کوئی خاطر خواہ رقم خرچ نہیں ہوگی اس لئے صوبائی حکومت نوکنڈی جو معدنیات سے زرخیز علاقہ ہے وہاں پر سولر پاور اور ونڈ پاور کا استعمال کرے تاکہ معدنی دولت کو جلد سے جلد عوام الناس کے فائدے کے لئے استعمال میں لایا جائے ۔

نوکنڈی وہ علاقہ ہے جہاں پر طوفانی ہوائیں سارا سال چلتی ہیں ۔ یہاں سے اتنی بجلی پیدا ہو سکتی ہے کہ جس سے پورا خطہ مستفید ہوسکتا ہے ۔ایران نے اس خطے میں بہت بڑا بلکہ خطے کا سب سے بڑا ونڈ پاور پلانٹ لگایا ہے۔

بجٹ میں ملازمتوں کی فراہمی کا بھی تذکرہ ہے لیکن دیکھا جائے تو گزشتہ35ہزار ملازمتوں کی کہانی پرانی ہوگئی ہے اب اسکا کوئی تذکرہ نہیں کرتا بلکہ طاقتور سرکاری افسران دعویٰ کرتے ہیں کہ صرف چند سو ملازمتیں ابھی تک فراہم کی گئیں ، 35ہزار ملازمتوں کو بھول جائیے البتہ صوبائی بجٹ میں اگلے سال سات ہزار کے لگ بھگ ملازمتیں فراہم کرنے کا ارادہ ہے ۔

موجودہ وقت میں بلوچستان کے دس لاکھ لوگ بے روزگار ہیں ان کے لئے بجٹ میں کوئی منصوبہ نہیں ہے ۔ کچھی کینال بڑی تعداد میں لوگوں کو روزگار فراہم کر سکتا تھا لیکن یہ گزشتہ پچیس سالوں سے زیر تعمیر ہے ، گوادر گزشتہ15سالوں سے زیر تعمیر ہے ۔

اگر ترقی کی یہی رفتار رہی تو گوادر بندر گاہ کا منصوبہ اگلے پچاس سال تک مکمل نہیں ہوگا ۔صوبے میں حالات کی تبدیلی کے اثرات یوں دکھائی دے رہے ہیں کہ سب سے بڑی رقم اب بھی امن و امان کے قیام پر خرچ ہورہی ہے ۔

اگربلوچ تنازعہ کا کوئی قابل قبول حل تلاش کیاجائے تو اتنی بڑی رقم امن وامان کے بجائے ترقی پر خرچ ہوگی لیکن مستقبل قریب میں ایسے کوئی آثار نظر نہیں آرہے ۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ پٹ فیڈر کے آبپاشی کے نظام کو بہتر بنایا جائے ، نہری پانی کا زیادہ بہتر استعمال ہو تاکہ صرف پٹ فیڈر دس لاکھ ایکڑ زمین آباد کرے اور کچھی کینال ‘ سات لاکھ کے بجائے دس لاکھ ایکڑ زمین آباد کرے۔

وفاق کو بھی نہری پانی کی تقسیم کا منصفانہ نظام قائم کرنا ہوگا ورنہ صوبوں کے درمیان تلخیاں بڑھتی جائیں گی ۔اسی کوتاہ نظری کے باعث کالا باغ ڈیم صوبوں کے درمیان متنازعہ ہوگیا آج یعنی ماہ جون میں بھی پٹ فیڈر کو صرف ڈہائی ہزار کیوسک پانی مل رہا ہے جبکہ ملک کے بعض علاقوں میں سیلاب کی صورت حال پیدا ہورہی ہے ۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ تمام نہروں کو پکا بنایا جائے تاکہ نہری پانی کا رسنا بند ہوجائے ۔ اور سیم اور تھور زدہ زمین دوبارہ قابل کاشت بنایاجائے ۔ زراعت ‘ گلہ بانی ‘ ماہی گیری اور معدنیات ہی دس لاکھ انسانوں کو روزگار دے سکتی ہے ۔ صوبائی حکومت کا پی ایس ڈی پی ملازمتیں فراہم کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔