|

وقتِ اشاعت :   June 21 – 2017

گزشتہ دنوں سردار عطاء اللہ مینگل کے گھر کے باہر شر پسندوں نے بم دھماکہ کیا تھا جس سے کوئی جانی نقصان نہیں ہوا ۔ البتہ مکان کے گیٹ کو کچھ نقصان پہنچا ۔ دھماکے کا مقصد یہ معلوم ہوتا ہے کہ خوف و ہراس پھیلانا یا سردار اختر مینگل جو آج کل امریکا میں ہیں ان کو ہراساں کرنا ہے ۔

البتہ ان کا امریکا سے بیان آیا ہے کہ جس میں یہ کہا گیا ہے کہ جن لوگوں نے یہ دھماکہ کیا ہے ان کو خوفزدہ کرنے کیلئے کیا ہے ۔ وہ اس سے خوفزدہ نہیں ہوں گے وہ اپنا موجودہ سیاسی سفر جاری رکھیں گے چند سال قبل دہشت گردوں نے ان کے گھر پر حملہ کیا تھا ۔

زبردست فائرنگ کی گئی تھی اس کی تحقیقات کے اثرات اور نتائج سامنے نہیں آئے اب حکومت بلوچستان نے موجودہ واقعہ کی تحقیقات کا فیصلہ کیا ہے ۔ اور ایک جی آئی ٹی تشکیل دی جائے گی جو اس کی تحقیقات کرے گا ۔

اس سے قبل کمشنر قلات نے جائے وقوع کا دورہ کیا تھا اور انہوں نے بتایا کہ یہ راکٹ کا حملہ نہیں تھا بلکہ بم دھماکہ تھا بم کو مکان کے گیٹ کے قریب نصب کیا گیا تھا یہ حقیقت ہے کہ سردار عطاء اللہ مینگل اور انکے صاحبزادے سردار اختر مینگل قومی اور سیاسی رہنما ء ہیں ان کی کسی سے ذاتی دشمنی نہیں ہے ۔

حکومت اور چند دیگر سیاسی پارٹیوں سے سیاسی اختلاف رائے ضرور ہے ۔ مگر سیاسی اختلاف رائے رکھنی والی پارٹیاں کسی کے گھر کے باہر بم نصب نہیں کرتیں اور نہ ہی مخالفین کو ہراساں کرتے ہیں یہ صاف اور سادہ دہشت گردی کا واقعہ ہے ۔

یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ عوام کو یہ بتائے کہ یہ دھماکہ کس نے کیا اور وہ کیا مقاصدحاصل کرنا چاہتے ہیں کیا اس دھماکہ کو اس طرح لیاجائے کہ آئندہ آنے والے وقت میں سردار اختر مینگل پر قاتلانہ حملہ ہو سکتا ہے ۔

اس سے قبل تین بار ان کو ہلاک کرنے کی کوشش کی گئی پہلے تو جب ان کو حب اور ساکران کے ریسٹ ہاؤس سے کراچی جیل منتقل کیاجا رہا تھا تو قافلے کو روکا گیا اوریہ کوشش کی گئی سردار اختر مینگل کو گاڑی سے اتار کر گولیاں ماری جائیں اور یہ مشہور کیاجائے کہ انہوں نے بھاگنے کی کوشش کی تھی اس لیے ان کو گولیاں مار کر ہلاک کیا گیا۔

دوسرا واقعہ کراچی جیل میں پیش آیا جس میں ان کو زہر دے کر ہلاک کرنے کی کوشش کی گئی جس کا وہ آج تک علاج کروارہے ہیں ’ تیسرا واقعہ کراچی میں پیش آیا جب مینگل محافظوں نے ایک سرکاری اہلکار کو اخترمینگل کے اسکول جانے والے بچوں کو ہراساں کرنے اور ان کا پیچھا کرنے پر گرفتار کر لیا تھا ۔

اس وقت کی حکومت ناراض تھی کہ ان کے اہلکاروں کو کیوں گرفتار کیا اور بعد میں پولیس کے حوالے کیا اس پر حکومت بہت زیادہ غصے میں تھی جس سے اختر مینگل کی زندگی کو خطرہ پیدا ہوگیا قومی اسمبلی کے اراکین کئی دنوں تک اختر مینگل کے گھر میں موجود رہے تاکہ حکومت کوئی کارروائی نہ کرے ۔

اگر سیاست کو سیاست تک محدود رکھا جائے اور سرکاری ملازمین سیاست نہ کریں سیاست سے دور رہیں اور اپنے پسند کے حکمران عوام پر مسلط نہ کریں توکوئی وجہ نہیں کہ حکومت اور سیاسی جماعتوں کے درمیان کوئی تنازعہ کھڑا ہو البتہ ہم یہ امید کرتے ہیں کہ حکومت بلوچستان صاف اور شفاف تحقیقات کرائی گی اور وقعہ کے حقیقی ملازمین تک پہنچ جائے گی اور ان کو قرار واقعی سزائیں دی جائیں گی ۔

موجودہ حکومت کی آئینی مدت کا یہ آخری سال ہے اور اگلے سال انتخابات ہوں گے اور لوگ نئی اسمبلی منتخب کریں گے جس کیلئے ماحول کو ساز گار رکھاجائے یہ اس وقت ہوگا جب سیاسی پارٹیوں کے درمیان تلخیاں کم سے کم ہوں اور ہر سیاسی پارٹی صرف اور صرف اپنے منشور کی تشریح کرے اور اس کی بنیاد پر ووٹ حاصل کرے ۔

ممکن ہو تو سرکاری ملازمین کو انتخابات سے دور رکھاجائے ۔ حکومت یا سرکاری ملازمین کی پسند اور نا پسند کا خیال نہ رکھا جائے بلکہ لوگوں کو آزادانہ طورپر انتخابات کی اجازت ہونی چائیے سیاسی مسائل کا ہمیشہ سیاسی حل تلاش کیاجائے ۔