|

وقتِ اشاعت :   June 23 – 2017

بلوچستان کے وزیر خزانہ سے لے کر وزیر تعلیم تک نے اپنے بجٹ تقاریر میں وفاقی حکومت پر شدید نقطہ چینی کی ۔

شاید ان دونوں وزراء اور دیگر ایم پی اے حضرات نے قائد حزب اختلاف مولانا عبدالواسع کی تقلیدکی اور وفاقی حکومت کو ہدف کا نشانہ بنایا کہ اس نے بلوچستان کو پسماندہ رکھنے کی بھرپور کوشش موجودہ دور تک جاری رکھی اور آدھے پاکستان کو صرف چند ارب روپے ترقیاتی مد میں دئیے ۔

اسمبلی کے فلور پر یہ الزام زیادہ شدت سے لگایا گیاکہ گزشتہ چار سالوں میں مسلم لیگ کی حکومت نے بلوچستان کو ایک بھی میگا پروجیکٹ نہیں دیا اورنہ ہی کسی میگا پروجیکٹ کو تکمیل کی طرف لے گیا ۔

چند ایک اسکیموں کے لیے ایک آدھ ارب روپے مختص کیے گئے اور ہمیشہ کی طرح سال کے آخر میں یہ معلوم ہوگا کہ آدھی سے زیادہ رقم ریلیز ہی نہیں ہوئی۔

بلوچستان کی پسماندگی کی آج کل ایک بڑی وجہ پی ایس ڈی پی یا ایم پی اے حضرات کا ذاتی ترقیاتی پروگرام ہے اس سے تمام کے تمام فنڈز ایم پی اے حضرات میں تقسیم ہوتے ہیں ۔

اس سے نہ صوبائی حکومت کی آمدنی میں اضافہ ہوتا ہے ، نہ ہی عام آدمی کو روزگار کے مواقع ملتے ہیں اور نہ ہی پسماندگی اور غربت میں کسی قسم کی کمی آتی ہے ۔

ہم ہمیشہ اس بات کے حامی رہے ہیں کہ ایم پی اے پروگرام صرف اور صرف وسائل کا ضیاع ہے اس کو فوری طورپر بند ہونا چائیے اس کے بجائے 86ارب روپے کی خطیر رقم کو معاشی منصوبہ بندی اور ترقیات پر خرچ کیاجائے۔

سردار عبدالرحمان کھیتران نے بجٹ سے متعلق بعض انکشافات کیے ان میں ضلع کیچ کیلئے سات ارب روپے ‘ قلعہ عبداللہ کے لئے 10.34ارب روپے، قلعہ سیف اللہ کے لئے چودہ ارب روپے اور ژوب کیلئے سات ارب روپے صرف جاری اسکیمات کے لئے مختص کیے گئے ہیں ۔

یہ نوکر شاہی کی مرضی ہے کہ شہر کے لئے کتنا روپیہ اور کب ریلیز کرے یہ صوبائی بجٹ کا ایک بڑا حصہ ہے جو صرف چند ایک ایم پی اے یا وزراء کی خدمت میں پیش کیاجاتاہے ۔

خود وزیر خزانہ نے وزیر منصوبہ بندی اور ان کے سیکریٹری پر سنگین الزامات لگائے اور کہا کہ صرف قلعہ عبداللہ کے لئے تین ارب روپے مختص کیے گئے لیکن اس کے مقابلے میں چار اہم ترین پیداواری شعبوں کے لیے ایک آدھ ارب روپے مختص کیے گئے ہیں ۔

ان شعبوں میں ماہی گیری ‘ زراعت‘گلہ بانی اور معدنی وسائل شامل ہیں۔ بلوچستان کی آبادی کا اسی فیصد عوام ان چار شعبوں کے ذریعے اپنا رزق حاصل کرتے ہیں حکومت کو انہی چار پیداواری شعبوں کی ترقی میں دلچسپی نہیں ہے ۔

حالانکہ یہ چار شعبے آسانی کے ساتھ دس لاکھ بے روزگار لوگوں کو ملازمت فراہم کر سکتے ہیں۔صوبے میں اندازاً دس لاکھ بے روزگار ہیں حکومت صرف سات ہزار ملازمتیں فراہم کرے گی ۔

پہلے 35ہزار ملازمتوں کا اعلان بھی ہوا اب بجٹ میں صرف سات ہزار ملازمتوں کا تذکرہ ہے ۔ ادھر بلوچستان کے دو بڑے اور میگا پروجیکٹس ہیں ایک کچھی کینال جو گزشتہ پچیس سالوں سے زیر تعمیر ہے اور دوسرا گوادر پورٹ کا منصوبہ جو گزشتہ پندرہ سالوں سے نظر انداز پڑا ہے ۔

اس منصوبہ پر کام کی اگر یہی رفتاررہی تو آئندہ صدی تک بھی یہ مکمل نہیں کیا جا سکے گا کیونکہ حکومت کو گوادر پورٹ کو مکمل کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں شاید اس کا یہ خیال ہو کہ اس سے پاکستان دشمنوں کو فائدہ ملے گا ۔

بعض ممالک گوادر پورٹ کے ذریعے وسط ایشیائی ممالک سے تجارت کر سکیں گے۔ موجودہ بجٹ نے عوام الناس کی امیدوں پر پانی پھیر دیا ہے ، اس بجٹ سے کوئی تبدیلی نہیں آنے و الی ہے ۔

بے روزگاری ‘ پسماندگی ‘ غربت اور جہالت بلوچ عوام کی قسمت میں لکھی ہوئی ہے ۔ وفاقی یا صوبائی حکومتوں کا کوئی ارادہ نظر نہیں آتا کہ وہ بلوچ عوام کی قسمت تبدیل کریں گے ۔