|

وقتِ اشاعت :   June 24 – 2017

بلوچستان اسمبلی میں تقریر کرتے ہوئے ایک رکن اسمبلی نے اس بات کی طرف اشارہ کیا کہ موجودہ مسلم لیگ کی وفاقی حکومت نے گزشتہ چار سالوں میں بلوچستان کے لئے ایک بھی میگا پروجیکٹ نہیں دیا، سال میں صرف چند ایک ارب روپے بلوچستان میں خرچ کیے گئے ۔

بلوچستان کے وزیر خزانہ نے اپنی بجٹ تقریر میں یہ انکشاف کیا کہ وفاقی حکومت پورے بلوچستان میں موجودہ مالی سال میں صرف بارہ ارب روپے خرچ کیے جو ایک افسوسناک بات ہے۔

بلوچستان پاکستان کا آدھا ہے اور ملک کا سب سے زیادہ پسماندہ اور غریب ترین خطہ ہے اس کے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھا جارہا ہے ۔

بلوچستان اسمبلی میں بجٹ تقاریر میں وفاقی وزیر منصوبہ بندی اور وزیر خزانہ کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا اوران دونوں کے بلوچستان سے متعلق معاندانہ رویے کی مذمت کی گئی۔

بلوچستان سے امتیازی سلوک کا ایک اور ثبوت یہ ہے کہ چار سال مکمل کرنے کے بعد جب مسلم لیگ کی حکومت ختم ہونے والی ہے ، گوادر ‘ روہڑی ریلوے لائن کی فیزبیلٹی کا تذکرہ وزیر ریلوے نے کیا ہے ۔

گوادر پورٹ کی تعمیر کاکام 2002ء میں شروع اور 2005ء میں مکمل ہوا گزشتہ دس سالوں میں پاکستان ریلویز یا حکومت پاکستان نے گوادر ریلوے پر ایک رویہ بھی خرچ نہیں کیا۔

دو سال قبل ایک ارب روپے ریلوے یارڈ کے لئے زمین خریدنے کے لئے رکھے گئے تھے اس کے بعد کچھ بھی پیش رفت ریلوے کے نظام کو بنانے میں نہیں ہوئی۔ بلوچستان کے ایک عام آدمی کو معلوم ہے کہ بلوچستان کے اندر سے مالی برآمدات کا کوئی تصور ہی نہیں ہے چند ایک ٹن کھجور کی پیداوار ہے۔

ان کو لانچ کے ذریعے دنیا کے کسی بھی علاقے کو بھیجا جا سکتا ہے ۔ گوادر کا اصل استعمال اور افادیت اس میں ہے کہ مشرقی ایشیاء اور وسطی ایشیاء کے درمیان ٹرانزٹ تجارت کی سہولیات پیدا کرے ۔

ملک کے اندر ریلوے کی ضرورت ایک صدی بعد آئے گی مگر بین الاقوامی تجارتی اداروں کو گوادر پورٹ کی ضرورت فوری طورپر ہے کیونکہ گوادر سے وسط ایشیائی ریل روڈ سسٹم تک رسائی میں 1400میل کا سفر کرنا پڑتا ہے ۔ جب کہ گوادر پورٹ کے لئے ملک کے اندر کوئی کارگو نہیں ہے ۔

چین نے بھی یہ باضابطہ اعلان کیا ہے کہ وہ بین الاقوامی تجارت میں گوادر بندر گاہ کو کوئی اہمیت نہیں دیتا تب یہ ضروری تھا کہ گوادر کو بذریعہ نوکنڈی زاہدان سے ملایاجاتا جو بین الاقوامی تجارت کی سب سے بڑی گزر گاہ ہے ۔

ایران بھارت کی امداد سے چاہ بہار کی بندر گاہ کو زاہدان سے ملا رہا ہے اور اس پر تیزی سے کام جاری ہے ۔ اس کا مقصد چاہ بہار بندر گاہ کو وسط ایشیائی ممالک کے ریل اور سڑک کے راستوں سے جوڑنا ہے تاکہ وسط ایشیائی ممالک چاہ بہار پورٹ کو استعمال کر سکیں ۔

حکومت پاکستا ن کا پہلے تو گوادر پورٹ کی تعمیرات مکمل کرنے اور اس کو فعال بنانے کا کوئی ارادہ نظر نہیں آرہا ہے نہ ہی کو ئی قابل توجہ سرمایہ کاری بند رگاہ پر ہورہی ہے ۔ سارا انحصار چین پر کیاجارہا ہے ۔

چین پر دباؤ ہے کہ ائیر پورٹ کو مکمل کیاجائے جبکہ چینی ایسٹ بے کی تعمیرات مکمل کرنے کی کوشش میں ہیں کہ بندر گاہ کو پہلے ساحلی شاہراہ سے ملایا جائے ۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ گوادر بندر گاہ کا دوسرا مرحلہ جلد سے جلد مکمل کیاجائے اور ساتھ ہی بندر گاہ کو بین الاقوامی ریلوے نظام سے منسلک کیاجائے تاکہ وسط ایشیائی ممالک یہاں سے تجارت کریں ۔

پاکستان سالانہ دس ارب ڈالرآسانی کے ساتھ صرف گوادر پورٹ سے کما سکتا ہے اگر اس نے مشرقی ایشیائی ممالک کا وسط ایشیائی ممالک سے تجارتی رابطہ کروادیا تو ۔ گوادر اور روہڑی ریلوے لائن کی کوئی اہمیت نہیں ہے یہاں نہ مسافر ہیں اور نہ کارگو بلکہ یہ ریلوے لائن ایک صدی میں بھی مکمل نہیں ہو سکتی ۔