|

وقتِ اشاعت :   July 20 – 2017

کوئٹہ: بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ سابق وزیراعلیٰ سردار اختر مینگل نے کہا کہ ہے کہ حکومت کو مدت مکمل کرنے اور جمہوریت کا استحکام چاہتے ہیں لیکن یہ جمہوری اداروں کو کسی شخصیت کا محتاج نہیں ہونا چاہیے،وزیراعظم کو قصور وار سمجھتے ہیں اور نہ ہی پاک دامن لیکن کچھ ضرور ہے ، جمہوری معاشروں میں ٹرین پٹری سے اتر جائے تو وزیر مستعفی ہوجاتا ہے ، یہاں ملک پٹڑی سے اترنے پر بھی کسی نے استعفیٰ نہیں دیا۔

کوئٹہ میں جمعرات کو پریس کانفرنس کانفرنس کے دوران ضمنی انتخاب میں نیشنل پارٹی اور جمعیت علمائے اسلام کے اتحادپر تبصرہ کرتے ہوئے بی این پی کے سردار اختر مینگل نے کہا کہ علماء نے کم وقت میں میر حاصل بزنجو کو قرآن پاک اور ڈاکٹرعبدالمالک بلوچ کو بانماز جماعت پڑھنا سیکھادیاہے ۔ اس موقع پر پریس کانفرنس میں موجود افراد نے قہقے لگائے۔

ضمنی انتخاب میں بی این پی اور اتحادی جماعتوں کے مشترکہ امیدوار کی عوامی پذیرائی سے ثابت ہوا کہ گزشتہ عام انتخابات میں عوامی مینڈیٹ چرایا گیا، بی این پی کو جلسے کی اجازت نہ دینے کا مقصد عوام کو جمہوری عمل سے دور رکھنا ہے۔ یہ بات انہوں نے کوئٹہ میں اے این پی، ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی اور دیگر اتحادی جماعتوں کے رہنماؤں کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہی۔

اس موقع پر عوامی نیشنل پارٹی کے صوبائی صدر اصغر خان اچکزئی،ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی کے عبدالخالق ہزارہ، بلوچستان نیشنل موومنٹ کے ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ اور بلوچستان نیشنل پارٹی عوامی کے عبدالواحد بلوچ موجود تھے۔ سردار اختر مینگل نے کہا کہ این اے 260 کے ضمنی انتخاب میں عوام نے بی این پی اور اس کے اتحادی جماعتوں کے مشترکہ امیدوار پر جس اعتماد کا اظہار کیا اس سے یہ ثابت ہوگیا کہ دو ہزار تیرہ کے انتخابات میں دھاندلی کرکے حقیقی عوامی مینڈیٹ چھینا گیا۔

انہوں نے قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 260پر ضمنی انتخابات میں بلوچستان نیشنل پارٹی اور اتحادی جماعتوں اے این پی ،بی این پی عوامی ،ایچ ڈی پی اور بلوچستان نیشنل موومنٹ کے مشترکہ امیدوار میر بہادر خان مینگل کو بھرپور ووٹ دینے پر اتحادی جماعتوں کے رہنماؤں اور ان کے کارکنوں،سیاسی وقبائلی عمائدین ،بلوچ پشتون ،ہزارہ اوردیگر اقوام کا شکریہ اداکیا اور کہاکہ انتخابی مہم اور پولنگ کے دن عوام کی جانب سے جس جوش وجذبے کااظہار کیا گیا اس کی مثال نہیں ملتی ۔

انہوں نے کہاکہ بی این پی اوراتحادی جماعتوں کے مشترکہ امیدوار کو پڑنے والے ووٹ اس بات کی غماز ہے کہ مذکورہ جماعتوں کو عوام میں زبردست پذیرائی حاصل ہے بلکہ 2013میں ان کے چرائے گئے مینڈیٹ کی بھی نشاندہی ہوگئی ہے اور یہ بات ثابت ہوگئی ہے کہ 2013میں بلوچستان کی حقیقی سیاسی جماعتوں کا مینڈیٹ چرایاگیا انہوں نے کہاکہ غیر جمہوری قوتوں اور ان عناصر کی جو اسٹیبلشمنٹ کے اشاروں پر چلتے ہیں کا متحد ہونا حقیقی سیاسی جماعتوں کیلئے اشارہ تھا کہ انہیں ضمنی انتخاب میں کامیابی نہیں مل سکتی لیکن اس کے باوجود بھی عوام نے ہمارے امیدوار کو 37ہزار 5سو کے لگ بھگ ووٹ دئیے جو ہمارے لئے حوصلہ افزا ء ہے ۔

ضمنی انتخابات کے بعد اتحاد میں شامل جماعتیں عوام کا شکریہ ادا کرنے کیلئے کوئٹہ میں جلسہ کرنا چاہتی تھی جس کیلئے ہاکی گراؤنڈ کا تعین بھی کیا گیا لیکن بعدازاں انتظامیہ کی جانب سے سیکورٹی وجوہات کی بناء پر ہمیں وہاں جلسہ نہ کرنے کا کہا گیا اور یہ کہاگیا کہ ہم جلسے کا مقام بدل دیں ۔ اس کے بعد انتظامیہ نے ہمیں خود نواب نورو ز خان کمپلیکس کوئٹہ میں جلسہ کرنے کا کہا اور جب ہم نے تیاریاں شروع کی تو پھر کہا گیاکہ سیکورٹی سے متعلق خطرات موجود ہیں اس لئے جلسہ نہ کریں۔

انہوں نے کہاکہ بی این پی اور اس کی اتحادی جماعتوں کو جلسہ عام سے روکنا حکومتی اوردیگر قوتوں کی بوکھلاہٹ کو ظاہر کرتی ہے ،انہوں نے کہاکہ جمہوریت دوسینگ والا کوئی جانور نہیں بلکہ جمہوریت عوام کے مینڈیٹ کے احترام، اظہار رائے کی آزادی کا نام ہے ۔مگر یہاں شاید جمہوریت ایک صوبے اسلام آباد یا پھر ایک جماعت کیلئے ہی ہے ،ہم بلوچستان کے لوگ جمہوریت کو اچھی طرح جانتے ہیں کیونکہ ہم نے ہروقت غیر جمہوری اور ان نادیدہ قوتوں کی مخالفت کی ہے جو جمہوریت کے خلاف سازشیں کرتے چلے آئے ہیں ۔

انہوں نے کہاکہ سیاسی جماعتوں کے قائدین اور ورکرز سے ان کا جمہوری حق چھیننا اس ملک ،صوبے اور خطے کیلئے نیک شگون نہیں ۔اس کا مقصد عوام کو جمہوری عمل سے دور رکھ کر آئی سولیشن کی طرف لے جاناہے ،اس سلسلے میں پہلے بھی لوگوں کو مجبور کیا گیا اور وہ جمہوری راستے کوترک کرکے چلے گئے کہیں ایسا نہ ہو کہ جمہوریت پسند قوتیں جو جمہوریت ،بچانے ،ساحل وسائل کے اختیارت کیلئے جدوجہد کررہی ہے کا ریلہ کسی اور طرف نہ چلایاجائے ۔

ایک سوال پر سردار اختر مینگل نے نیشنل پارٹی اور جمعیت علمائے اسلام کے انتخابی اتحاد سے متعلق کہا کہ علماء کرام نے میر حاصل بزنجو کو قرآن پاک پڑھانا سکھادیاہے بلکہ ڈاکٹرعبدالمالک کو بھی باجماعت نماز پڑھنا سیکھادی ہے ۔انہوں نے کہاکہ غیر جمہوری قوتوں کے اشاروں پر متحد ہونیوالی سیاسی قوتیں پولنگ کے نتائج میں تاخیر ،ووٹوں کا مسترد کیاجانا کیا جمہوریت کے خلاف نہیں ۔

پاناما کیس پر تبصرہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہم جمہوری اداروں اور جمہوریت کااستحکام چاہتے ہیں تاہم اداروں کی استحکام کا یہ مطلب نہیں کہ وہ ایک شخصیت کی محتاج بنے ،عدلیہ ہو یا پھر پارلیمنٹ سمیت دیگر ادارے کو شخصیات کے گرد نہیں گھومنا چاہئے ۔

انہوں نے کہاکہ میاں نوازشریف کے متعلق ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ وہ 100فیصد بری الزمہ ہے یاپھر100فیصد ملزم ہے تاہم کچھ تو ہے کہ جس کی وجہ سے ان کے خلاف آوازیں اٹھ رہی ہے ،انہوں نے کہاکہ ہم ہمیشہ جمہوریت جمہوریت کرتے رہتے ہیں لیکن جن ممالک میں زیادہ جمہوریت کے دعوے نہیں کئے جاتے وہاں ایک حادثے یا پھر الزام لگنے کے بعد ہی حکومت عہدیداران عہدوں سے الگ ہوجاتے ہیں ۔

یہاں ملک پٹڑی سے اترگیا لیکن کسی نے استعفیٰ نہیں دیا ۔ہم چاہتے ہیں کہ تین جیمز یعنی ججز ،جرنیلوں اور جرنلسٹس کا بھی احتساب ہو ۔پونم سے متعلق پوچھے گئے سوال کے جواب میں ان کاکہناتھاکہ پونم کے معنی چاند کے ہے اس پر کس نے داغ لگائے اور کس وجہ اور کن کی وجہ سے یہ غیر فعال ہوا اس کے متعلق اس کے سربراہ سے سوالات کئے جائیں ۔

اس موقع پر عوامی نیشنل پارٹی کے صوبائی صدر اصغر خان اچکزئی نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مستونگ کوئٹہ اور چمن میں پیش آنے والے افسوسناک واقعات قابل مذمت ہے ۔انہوں نے کہا کہ اس طرح کے واقعات میں بہت سے بے گناہ لوگ شہید ہوئے ہیں ،ہم دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کا ضرور سنتے ہیں لیکن جو قوتیں یہاں امن وامان کی خرابی میں ملوث ہے یا جو لوگ ان کے سہولت کار ہے ان کے خلاف ہمیں کارروائی ہوتی دکھائی نہیں دی ۔

انہوں نے کہاکہ عجیب بات یہ ہے کہ تھریٹس الرٹس جاری کئے جاتے ہیں دہشت گردوں کا حلیہ اور تصاویر تک چھاپی جاتی ہے مگر واقعات ہوجاتے ہیں اور دہشتگرد پکڑے جاتے ہیں اور نہ ہی ان کے سہولت کار ،انہوں نے کہاکہ چمن میں ڈی پی او ساجد مہمند شہید ہوئے ۔ جہاں پولیس کی آفیسران محفوظ نہ ہو وہاں عام عوام اور سیاست دان کیسے محفوظ رہ سکتے ہیں ۔

انہوں نے کہاکہ اتحاد میں شامل جماعتیں ہی صوبے کی حقیقی وارث جماعتیں ہیں تاہم ہماری سیاسی سرگرمیوں سے قبل تھریٹس لیٹرز اور سیکورٹی خدشات سمیت واقعات کا ہونا حل طلب سوال ہے ۔گزشتہ سال اکتوبر اور پھر اس سال مئی میں اے این پی کو جلسہ کرنے کی اجازت نہیں دی گئی جبکہ ہمارے جلسے سے تین دن قبل تحریک انصاف کو کوئٹہ میں جلسہ کرنے دیا گیا جس کیلئے انہیں وزیراعظم سے زائد سیکورٹی دی گئی ۔

انہوں نے کہاکہ حلقہ این اے 260پر 5جماعتی اتحاد کے مشترکہ امیدوار کو عوام کی جانب سے بھرپور مینڈیٹ ملنا حوصلہ افزاء ہے ۔ بی این پی کے امیدوار کی حمایت کرنا عوامی نیشنل پارٹی کیلئے مشکل فیصلہ تھا ایسی فضائی بنائی گئی کہ جیسے بلوچوں اور پشتونوں کے درمیان کوئی جنگ ہو۔ ہم نے دونوں برادر اقوام کے درمیان رواداری کے فروغ کیلئے یہ مشکل فیصلہ کیا۔

اس سلسلے میں اے این پی کے کارکنوں نے جس مشکل میں کام کیا وہ قابل تعریف ہے۔ انہوں نے کہاکہ وزیراعظم پانامہ جبکہ اتحادی جماعتیں کرپشن کے باعث چھوٹ نہیں سکیں گی پہلے حکمران اقتدار سے چلے جاتے تو ان کے خلاف کیسز کھولے جاتے اب تو حکومت میں بیٹھے وزراء اور مشیر جیلوں میں بیٹھے ہیں یا جیل جانے کی تیار ی کررہے ہیں۔

ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی کے عبدالخالق ہزارہ نے کہاکہ مستونگ واقعہ کے بعد اس کی سوشل میڈیا پر تشہیر کا مقصد اقوام اور مختلف علاقوں کے لوگوں کے درمیان نفرتیں بڑھانی ہے ،دہشت گردوں کا مقصد بھی وہی ہوتاہے ،اتحاد میں شامل جماعتیں کوشش کررہی ہے کہ رواداری اور اخوت کی فضاء کو پروان چڑھایاجاسکے ہم چاہتے ہیں کہ عدم تشدد کی فضاء قائم ہو ۔

بلوچستان نیشنل پارٹی عوامی کے چیئرمین واحد بلوچ نے ٹارگٹ کلنگ کے واقعات کی مذمت کی اور کہاکہ قوم پرست جماعتوں کے اتحاد کا سہرا اختر مینگل کے سر ہے ہم مثبت سوچ اور اپروچ کے ذریعے اس اتحاد کو آگے بڑھائینگے ۔

بلوچستان نیشنل موومنٹ عبدالحئی بلوچ نے ٹارگٹ کلنگ کے واقعات کی مذمت کی اور کہاکہ سیکورٹی پر اربوں روپے خرچ ہونے کے باوجود بھی امن وامان کی صورتحال بہتر نہیں، کوئی خود کو محفوظ نہیں سمجھتا ،انہوں نے کہاکہ صوبے بھر میں چیک پوسٹوں کی بھر مار کے باوجود بھی جمہوری عمل جلسوں کے انعقاد کو روکا جارہاہے،

انہوں نے کہاکہ ہم جمہوری نظام کو آگے بڑھانے کے حق میں ہے ،میاں نوازشریف سے استعفیٰ کا مطالبہ درست نہیں ۔ اس ملک میں کبھی حقیقی جمہوریت کو پنپنے نہیں دیا گیا۔ آج بھی پارلیمنٹ بے اختیار اور ربڑ اسٹیمپ ہے ، عدلیہ اور میڈیا آزاد نہیں لیکن اس کے باوجود ہم لنگڑی لولی جمہوریت کے حق میں ہے کیونکہ جمہوری عمل روکا گیا تو اس کا سب سے زیادہ نقصان بلوچستان کے عوام اور محکوم اقوام کو ہوگا۔ عوام کی رہی سہی آزادی بھی چھین لی جائے گی۔