|

وقتِ اشاعت :   July 21 – 2017

مستونگ کے قریب قتل عام کا ایک اندوہناک واقعہ پیش آیا جس میں ماں ‘ بیٹا سمیت 4افراد کو دہشت گردوں نے گولیوں سے بھون ڈالا اور ان سب کی موت موقع پر ہی واقع ہوگئی ۔ جبکہ پانچواں شخص گولیاں لگنے سے شدید زخمی ہوا اوروہ زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا ہے ۔

پولیس کے مطابق دہشتگرد پہلے سے گھات لگائے انتظار میں تھے، جونہی ان کی کار’’ چھوتو‘‘ کے قریب اسپیڈ بریکر پر پہنچی تو دہشت گردوں نے دونوں طرف سے کار میں سوار لوگوں کو نشانہ بنایا اور فوری طورپر فرار ہوگئے۔

چاروں افراد پر 39گولیاں انتہائی قریب سے فائر کی گئیں ۔ پولیس کو تلاشی او رتفتیش کے دوران 39گولیوں کے خول ملے جو 9ایم ایم پستول کے ہیں جو عموماً دہشت گرد ملک بھر میں ٹارگٹ کلنگ کے لئے استعمال کرتے ہیں ۔مجموعی طورپر دیکھا گیا ہے کہ سرکاری اداروں کو اس قسم کے اندوہناک واقعات کی تفتیش میں کوئی خاص دلچسپی نہیں ہوتی اس لیے چند دنوں بعد اس کی تفتیش کو داخل دفتر کیا جاتا ہے۔

گزشتہ ادوار میں رہزنی اور ڈاکہ کی وارداتوں پر سالوں تفتیش کی جاتی تھی اور حکام بالا مقامی افسران سے وقتاً فوقتاً رپورٹ طلب کرتے رہتے تھے ۔

اخبارات بھی آئے دن تفتیش سے متعلق اپنے قارئین کو مطلع کرتے رہتے تھے ۔ آجکل بے گناہ لوگوں کے قتل عام کی تفتیش میں کسی کو بھی دلچسپی نظر نہیں آتی ۔

گزشتہ سالوں چند ایک ایماندار اور نیک پولیس افسران نے ایسے معاملات کی تفتیش کی اور بعض افسران انتہائی مطلوب دہشت گردوں اور ان کے کمانڈوں کے قریب پہنچ چکے تھے کہ ان پر گھات لگا کر حملہ کیا گیاا ور ان پولیس افسران کو شہید کیاگیا ۔ ابھی تک یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ ان حملوں میں کون لوگ ملوث تھے ۔

شہید پولیس افسروں کی تعداد درجنوں میں ہے۔ زیادہ دل چسپ بات یہ ہے کہ دہشت گرد جھڑپوں میں ضرور مارے گئے مگر ان میں کوئی زندہ گرفتار نہیں ہوا اور نہ ہی پتہ چلا کہ ان کی پشت پر کون سی دہشت گرد تنظیمیں ہیں جو ہر وقت ٹھیک ٹھیک نشانے لگاتے ہیں اور گرفتار نہیں ہوتے ۔ یہ ریاست اور ریاستی اداروں کی ذمہ داری ہے کہ ان دہشت گرد تنظیموں کا پتہ لگائے اور ان کے ماسٹر مائنڈ کو گرفتار کرے۔

بلوچستان اور خصوصاً کوئٹہ کے گردونواح میں ہزاروں کی تعداد میں ہزارہ قبائل کے لوگوں کو سنگ دلی سے قتل کیا گیا ۔

یہ سلسلہ گزشتہ دو دہائیوں سے جاری ہے لیکن ان کے قاتل گرفتار نہیں ہوتے ، ہاں ہلاک ضرور ہوتے ہیں اور ہلاک ہونے کے بعد ان کی شناخت کی گئی کہ وہ فلاں دہشت گرد تھا ۔

ایک بہت ہی سینئر پولیس افسر کے گھر پر کار بم حملہ کیا گیا ، وہ بھی سب سے زیادہ سیکورٹی زون میں واقع مکان پر ۔

دہشت گردوں نے ان کو اور ان کے خاندان کے افراد کو کار بم حملے میں ہلاک کرنے کی کوشش کی کیونکہ وہ ایک انتہائی حساس مقدمہ کو حل کرنے کے قریب پہنچ گئے تھے۔

مستونگ واقعہ سے قبل کوئٹہ میں اسپنی روڈ پر بھائی بہن موٹر سائیکل پرجارہے تھے کہ دہشت گردوں نے ان کو نشانہ بنا کر قتل کردیا یعنی اب خواتین کوبھی نہیں بخشا جاتا ۔

مزید پانچ دیگر افراد جن کا تعلق ہزارہ برادری سے تھا فائرنگ کرکے زخمی کردئیے گئے ۔ اس طرح بلوچستان نیشنل پارٹی کے رہنما نوید دہوار کو گھات لگاکرہلاک کیا گیا ۔

بہت عرصہ بعد سیاسی بنیادوں پر کوئٹہ شہر میں ٹارگٹ کلنگ کی گئی جس کے خلاف پورے صوبے میں احتجاج جاری ہے۔

آئے دن سیاسی کارکن جلوس نکالتے ہیں اور ملک نوید دہوار کی ٹارگٹ کلنگ کی مذمت کرتے ہیں جبکہ حکومت کی جانب سے کسی خاص دل چسپی کا مظاہرہ نہیں کیاجاتا ۔

ان تمام معاملات میں ہزارہ قبائل کے افراد کا قتل عام حکومت وقت کے لئے ندامت کا باعث ہے ۔ہزارہ قبائل کے کئی دہائیوں سے دوسری قومیتوں سے انتہائی برادرانہ تعلقات ہیں، ان کاآپس میں کوئی تنازعہ نہیں ۔

یہ مذہبی اور فرقہ پرست دہشت گرد اس قسم کی کارروائیوں میں ملوث ہیں اور یہ تمام عناصر مذہبی جماعتوں سے شہہ پا کر ٹارگٹ کلنگ کررہے ہیں ۔

حیرانگی کی بات یہ ہے کہ حکومت کا کوئی کردار نظر نہیں آرہا اور نہ ہی تفتیشی اداروں کو اس قسم کے واقعات کی روک تھام میں کوئی دلچسپی ہے ۔