|

وقتِ اشاعت :   July 22 – 2017

کوئٹہ : بلوچستان نیشنل پارٹی کے مرکزی ترجمان نے کہا ہے کہ نیشنل پارٹی نے خود کو ٹانگہ پارٹی ثابت کر دیاعوامی حمایت کا دعوی کرنے والوں کے پاس ضمنی انتخاب کیلئے امیدوار ہی دستیاب نہیں تھا عوامی پذیرائی سے محروم پارٹی نے تاریخی شکست سے بچنے کیلئے مذہبی جماعت کی حمایت کا اعلان کیا تاکہ اپنی ناکامی کو چھپایا جا سکے ۔

پارٹی نے 2013ء میں بھی اسی نشست پر 33ہزار ووٹ حاصل کئے تھے جو بعد میں ان کے ہمنوا فرشتوں نے تبدیل کرد یا اب بھی پارٹی نے ضمنی انتخاب میں 37ہزار سے زائد ووٹ حاصل کر کے یہ ثابت کیا کہ عوام بی این پی کے ساتھ ہیں اور پارٹی قائد سردار اختر جان مینگل بلوچ و بلوچستانی عوام کے ہر دل عزیز لیڈر بن چکے ہیں۔

اقتدار کے بغیر بھی بلوچستان کے بیشتر اضلاع میں تاریخی جلسوں نے حکمران جماعت کو ہوس باختہ کر دیا گیا انہیں بی این پی فوبیا ہو چکا ہے اپنی سیاسی موت کو قریب دیکھ کر بوکھلاہٹ کا شکار ہو چکے ہیں ۔

ترجمان نے کہا کہ ایم پی اے ہاسٹل بند کمرے میں بیٹھ کر بیانات داغنے سے کچھ نہیں ہونے والانہیں کیونکہ ان کیلئے بلوچستان زرغون روڈ تک محدود ہے عوامی حمایت بیانات سے نہیں کارکردگی سے حاصل کی جا سکتی ہے پشیمانی اور ناکامی ان کا مقدر بن چکی ہے اپنی قیادت کی کرپشن ، اقرباء پروری کو بیانات سے چھپانا ممکن نہیں۔

موصوف کی پارٹی کے حاصل خان بزنجو جو 1992ء سے شیروانی بنا کر اسی آس میں بیٹھے تھے کہ انہیں وفاقی وزارت ملے وزارت کیلئے انہوں نے بہت سے جتن کئے یہاں تک کہ نیشنل پارٹی کی پوری قیادت نے مخبر کا کردار ادا کر کے بلوچوں کے خون سے بھی ہاتھ رنگ لئے محترمہ کلثوم نواز کا ہینڈ بیگ تک اٹھا کر ایئر پورٹ پہنچنے کی سعادت بھی ان کے حصے میں آئی ۔

حاصل خان اینڈ کمپنی نے مخبری کے تمام فرائض ادا کر نے کے بعد انہیں دو سال بعد پورٹ اینڈ شپنگ کی وزارت نصیب ہوئی ٹینکی لیکس ، ٹھیکیوں میں اربوں روپے کی کرپشن نے ثابت کیا کہ یہ ٹیم مال و دولت کمانے کی خاطر اقتدار میں آئی انہیں مکمل طور پر بلوچوں کو صفحہ ہستی سے مٹانے کیلئے مکمل چھوٹ دی گئی تھی

زراعت اور ایری گیشن اربوں روپے کی کرپشن میں انہیں احتساب کا نشانہ اس لئے نہیں بنایا جا رہا ہے کہ بلوچوں کیخلاف معاون و مدد گار ثابت ہو رہے ہیں ۔

بلوچ باشعور ہیں انہیں ہر کوئی اب دھوکہ نہیں دے سکتا علی بابا اور چالیس چوروں کے ٹولے کی ہرزا سرائی اب کام کی نہیں رہی نیشنل پارٹی اپنے چہروں سے کون کون سا داغ مٹاتے رہیں گے موصوف کو ذہنی صلاحیتوں کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ سردار اختر جان مینگل سریاب میں یا ریلوے سوسائٹی میں رہائش پذیر ہیں۔

ترجمان نے کہا کہ نیشنل پارٹی نے لسانی جماعت سے اتحاد کر کے بلوچوں اور بلوچستان کے خلاف جو سازشیں کیں اور موجودہ دور حکومت میں بلوچوں کو جس نہج پر پہنچایا گیا بلوچ تاریخ تہذیب تمدن کے خلاف لسانی جماعت سے مل کر سازشیں کی گئیں وہ ڈھکی چھپی نہیں ۔

بلوچ علاقوں کو ترقیاتی کاموں میں مکمل نظر انداز ، 700پوسٹوں کو ختم کرنا ، بلوچ علاقوں کے تمام فنڈز کو مختص علاقوں تک محدود کرنا ، بلوچوں کو نظر انداز کرنا معاشی و معاشرتی طور پر بلوچوں کو مزید زبوں حالی کا شکار کرنے میں جو کردار ادا کیا یہ ان کیلئے باعث ندامت ہونی چاہئے ان کی حکومتی کارکردگی یہ ہے کہ جامعہ بلوچستان کے وائس چانسلر کے سامنے پوری جماعت ہاتھ باندھے بے بس کھڑی ہے ۔

چاکر خان رند کے نام سے ایک یونیورسٹی جو سبی میں بنائی جانے تھے اخلاقی جرات نہ کر سکے کہ کیونکہ لسانی جماعت کے سامنے بے بس ہیں گوادر کے اختیارات کا مسئلہ ہو ، مردم شماری یا افغان مہاجرین کا مسئلہ ہو ، لاپتہ افراد ، انسانی حقوق کی پامالی یا بلوچ اجتماعی قومی مفادات کی بات ہو بی این پی کے کردار سے ہر بلوچستانی بخوبی واقف ہے جس پر وضاحت کرنے کی ضرورت نہیں۔

نیشنل پارٹی کا کردار اور عمل بھی عیاں ہے جسے باتوں سے چھپانا ممکن نہیں من گھڑت ، غیر سنجیدہ بیانات داغنے سے کچھ نہیں ہونے والا پشیمانی اور ناکامی اب ان کا مقدر بن چکی ہے اقتدار سے قبل ایم پی اے ہاسٹل کو اغواء برائے تاوان کیلئے محفوظ جگہ پا کر استعمال کرنے والے پکڑ جانے کے ڈر سے چھلانگیں لگانے کوششیں تاریخ کا حصہ بن چکی ہے ۔

خود کو نام نہاد دانشورکا سرٹیفکیٹ جاری کرنے والوں سے عوام بخوبی واقف ہیں نیشنل پارٹی کی قیادت باؤلا ہو چکی ہے ایسا ہونا ایک فطری عمل ہے انہیں کرپشن سے پہلے سوچنا چاہئے تھا کہ اب انگلیاں اٹھیں گی اور تنقید کی جائے گی کرپشن کے ناسور نے معاشرے کے دیمک کی طرح چاٹ لیا ہے جو لوگ لفظی دعوے کرتے تھے ۔

انہوں نے ہاتھ کی صفائی ایسی دکھائی کہ بلوچستان کی تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی ہمیں یہ علم ہے کہ آج بلوچ معاشرے میں کرپشن ،ا قرباء پروری ، لوٹ مار کے بعد یہ کس ڈگر پر کھڑے ہیں اب تو عوام نے ان کے چہرے پہچان لئے ہیں متوسط طبقے کا ڈرامہ رچانے اور شرافت کا لبادہ اوڑھ کر آخر کب تک عوام کو دھوکہ دیا جا سکتا ہے۔

آخر کار ایسے لوگ اپنے حتمی انجام تک پہنچ ہی جاتے ہیں کیونکہ جو قیادت اپنے نوجوانوں ، شہیدوں کے ساتھ مخلص نہ ہو اور ان کے ہاتھ مخبری کے خون سے رنگے ہوں بلاواسطہ یا بلواسطہ آپریشن میں ان کی رضا مندی شامل ہو تو ان شہداء اور بے گناہ نوجوانوں ، ماؤں بہنوں کی آہیں ضرور رنگ لائیں گی ان کے چہرے عوام کے سامنے بے نقاب ہو چکے ہیں ۔

یہ قتل و غارت گری میں ملوث ہونے کے بعد چور بھی ثابت ہو چکے ہیں خود کو عوامی خدمت گار اور فٹ پاتھ پر واپس آنے والوں نے جھوٹ کے تمام حدیں پار کر دی فٹ پاتھ کے بجائے روس ، کینیڈا ، مسقط ، دبئی میں جائیدادوں ، کاروبار اور محلات بنانے چل نکلے ہیں۔

ہاتھ کی صفائی ایسے دکھائی کہ بلوچستان کے عوام دھنگ رہ گئے ٹینکی لیکس کے بعد اب پتہ نہیں اور کتنے لیکس ہوں گے اس وقت تک پتہ نہیں ان کی پریشانی اور کتنی بڑھیں گی یہ وقت ہی بتائے گا کیونکہ بلوچوں کے خون کے ساتھ ہولی کھیلنے والوں کے تمام راز آہستہ آہستہ فاش ہوتے جا رہے ہیں ۔

انہوں نے متوسط طبقے اور قوم پرستی لبادہ اوڑھ کے بہت دھوکہ دیا اب مزید جھوٹ پر مبنی بیانات جذباتی اور غیر منطقی باتوں سے معاملہ حل ہونے والانہیں اب عوام کے سامنے کس منہ سے جائیں گے کیا ۔

انہوں نے بلوچستان میں لاپتہ افراد کی بازیابی ، مسخ شدہ لاشوں ، آپریشن بند کرایا چار سالوں میں آپریشن ، قتل و غارت گری ، بلوچوں کے گدانوں کو جلانے میں بلاواسطہ یا بلاواسطہ یہ شریک نہیں رہے تاریخ بے رحم ہے وہ خود ثابت کر دے کہ نام نہاد جعلی قوم پرست کی کوئٹہ اور اسلام آباد میں کیا پالیسی ہے پنجگور و تربت میں عوام کے سامنے کیا پالیسیاں ہیں چند عرصہ سے سوشل میڈیا ، اخبارات اور بلوچ معاشرے میں جن القابات سے انہیں نوازا جا رہا ہے وہ کسی بھی ڈھکی چھپی نہیں ۔

متوسط طبقے کی قیادت سے لے کر اکثریت لوگ کرپشن کے گورک دھندے میں ملوث پائے جا رہے ہیں پہلے تو دعوے کرتے تھے کہ بلوچستان کا مسئلہ اہمیت کا حامل ہے ہم اسے حل نہیں کر سکتے ساڑھے چار سال اسی طریقے سے لوگوں کو دھوکہ دیا اپنے آپ کو پارسا ثابت کرنے کی کوشش کی ۔

سیمینار اور ڈرائنگ رومز اور ڈیڑھ انچ کی نام نہاد دانشوروں کے کیوہ خانوں میں بیٹھ کر بلوچستان کے حالات واقعات کا اپنے مرضی و منشا کے مطابق تجزیہ کرنا اور بہتر گرداننا ان کی کم علمی کی نشاندہی کرتاتھا صرف زرغون روڈ تک امن و امان کی بحالی کو بلوچستان میں اپنے حکومت کے فتح کے جھنڈے گاڑنے سے بھی پیچھے نہیں رہے جو لوگ اپنے گھر نہیں جا سکتے ایم پی ہاسٹل میں ٹھکانہ بنا رکھا ہے ان سے عوام خیر کی کیا توقع رکھیں ۔

ان کی اتنی وقعت نہیں کہ پارٹی ان کے خلاف بیانات دے لیکن یہ دانستہ طور پر کوشش کر رہے ہیں کہ بلوچستان کے اہم معاملات اور ڈاکہ زنی سے لوگوں کی توجہ ہٹے لیکن یہ اکیسویں صدی ہے عوام پل پل کی خبر رکھتے ہیں۔