|

وقتِ اشاعت :   July 25 – 2017

بلوچستان کا 780 کلومیٹر طویل ساحل جیوانی سے لے کر گڈانی تک پھیلا ہوا ہے۔ اس ساحل سے ملحقہ سمندر کو پہلے بحرِ عرب کے نام سے پکارا جاتا تھا مگر موجودہ صوبائی حکومت نے بلوچستان اسمبلی میں متفقہ قرارداد منظور کر کے اس سمندر کو بحرِ بلوچ کے نام سے منسوب کر دیا۔

بلوچستان کے ساحل بحیرہ عرب سے بحر بلوچ تو بن گیا۔مگر یہاں صدیوں سال سے بسنے والے ماہی گیروں کے حالات زندگی کو بدلنے میں ماضی سے لیکر موجودہ حکومت تک کسی نے خاطرخواہ اقدامات نہیں اٹھائے۔

بلوچستان کا ساحل نہ صرف معاشی حوالے سے اہمیت کا حامل ہے بلکہ عسکری اور جغرافیائی حوالے سے ساحل مکران کو سینٹرل ایشیا ء کا گیٹ وے کہا جاتا ہے۔ایک طرف اس اہم ساحل پر دنیا کی نظریں مرکوز ہیں تو دوسری طرف ساحل کے اصل باسی ماہی گیر کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں۔مکران ساحل کا یہ تجارتی گیٹ وے دنیا کے بعض ممالک کے لئے ایک اہم آبی گزرگاہ ہے۔

ایک محتاط اندازے کے مطابق بلوچستان کے ساحل پر 8 سے 10 ہزار کشتیاں رجسٹرڈ ہیں جو کہ ماہی گیری کے کام سے وابستہ ہیں۔ یہاں کے ماہی گیر شکار کے بعد اپنی کشتیوں کو مختلف ساحلی علاقوں میں لنگر انداز کرتے ہیں۔ زیادہ تر ماہی گیر اپنی کشتیوں کو گوادر بندرگاہ، پسنی بندرگاہ اور سونمیانی میں لنگر انداز کرتے ہیں جبکہ بعض ماہی گیر کراچی کی بندرگاہ میں مچھلیاں اتارتے ہیں۔

بلوچستان کے ماہی گیر زیادہ تر چھوٹی کشتیوں کا استعمال کرتے ہیں جن کی لمبائی زیادہ سے زیادہ 15 میٹر ہوتی ہے۔ پشکان، جیوانی، گنز، کلمت، اورماڑہ اور دیگر ساحلی علاقوں کے ماہی گیر ان چھوٹی کشتیوں پر روزانہ سمندر میں شکار کرتے ہیں اور شام کو ساحل پر لوٹ آتے ہیں۔ ساحل پر آ کر وہ شکار کی گئی مچھلیوں کو مقامی مارکیٹ میں فروخت کرتے ہیں جہاں فش کمپنیاں انہیں خرید کر عالمی منڈی میں فروخت کرتی ہیں۔

چوٹی کشتیوں کے استعمال کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ یہ کشتیاں سستے داموں تیار ہوتی ہیں جنہیں غریب ماہی گیروں کے لئے خریدنا آسان ہوتا ہے۔تقریباً 5سے 6 لاکھ لوگوں کا معاش براہِ راست بحرِ بلوچ سے وابستہ ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو سمندر میں شکار کرکے اپنی روزی، روٹی کماتے ہیں۔ ان کے علاوہ ماہی گیری کی صنعت سے وابستہ دوسرے لوگوں کو بھی گنا جائے تو بحرِ بلوچ پر منحصر لوگوں کی تعداد 10 لاکھ تک جا پہنچتی ہے۔

ماہی گیر وہ طبقہہے جو سمندر کی پیٹ چیر کر اپنی روزی روٹی کماتے ہیں۔سمندر کی بے رحم موجوں کا پرواہ کئے بغیر یہ طبقہ اپنی زندگی کی قیمت پر بمشکل دو وقت کی روٹی کماتے ہیں اوربعض اوقات انہی موجوں کی نظر ہوجاتے ہیں۔

چھوٹی کشتیوں کے علاوہ بحرِ بلوچ میں بڑی بڑی لانچیں بھی شکار کرتی ہیں۔ یہ لانچیں جدید ٹیکنالوجی سے لیس ہوتی ہیں اور شکار کے سلسلے میں ایک، ایک ماہ تک سمندر میں موجود رہتی ہیں۔ اس دوران پکڑی جانے والی مچھلیوں کو لانچ پر موجود کولڈ اسٹوریج میں محفوظ کیا جاتا ہے۔ ان لانچوں کی قیمت ایک کروڑ سے 3 کروڑ تک بتائی جاتی ہے۔ 

لانچ کے ذریعے شکار کے لئے عموماً قیمتی جالوں کی ایک لمبی کھیپ استعمال کرنی پڑتی ہے۔ یہ جال مقامی لوگ بناتے ہیں اور اس کے علاوہ اسے کراچی اور ایران سے بھی برآمد کیا جاتا ہے۔اس جال بنانے کی صنعت سے متعدد خاندان کا ذریعہ معاش منسلک ہے۔ساحل پر فائبر گلاس سے بنی کشتیاں بھی استعمال کی جاتی ہیں جنہیں ایران سے برآمد کیا جاتا ہے۔ 

اس کے علاوہ گڈانی شپ بریکنگ میں پرانے اور ناکارہ جہازوں کو توڑ کر ان سے بھی کشتیاں بنائی جاتی ہیں جو کہ ماہی گیری میں استعمال ہوتی ہیں۔گوادر کے ساحلی علاقہ میں بھی بڑی بڑی لانچوں کو بنانے کا کام کیا جاتا ہے۔ یہ کام پرائیویٹ سیکٹر کے زمرے میں آتا ہے۔ 

گوادر میں یہ لانچ ‘پدی زر’ میں بنائے جاتے ہیں جہاں مقامی مزدور کام کرتے ہیں۔ لانچ بنانے والے ایک کاریگر سے میں نے بات کی تو اس کا کہنا تھا،”میں نے زندگی کے 35 سال لانچ اور کشتیاں بناتے ہوئے گزارے ہیں اور یہاں روزانہ مجھے 800 روپے ملتے ہیں جن سے میں بمشکل اپنے خاندان کا پیٹ پالتا ہوں۔”جبکہ پسنی کے ساحل کنارے بھی کشتی سازی کی جاتی ہے۔جماعت نامی بولڈر نے بتایا کہ 25سالوں سے یہ کاروبار کررہا ہوں روزانہ 1000روپے کی دیہاڑی ملتی ہے۔جس سے بمشکل دو وقت کی روٹی میسر ہوتی ہے۔جبکہ گڈانی اور ملحقہ ساحلی پٹی میں چھوٹے کشتیاں تیار ی جاتی ہیں۔

بلوچستان کے ساحلی علاقوں میں روزگار کے دیگر مواقع کم ہیں، اس لئے زیادہ تر افراد حصولِ روزگار کے لئے ماہی گیری کے پیشے سے وابستہ ہو جاتے ہیں۔ موروثی ماہی گیر ہونے کے ناتے یہ لوگ ماہی گیری کے ہنر میں ماہر سمجھے جاتے ہیں۔

اس کا نقصان یہ بھی ہے کہ بہت سے بچے اور نوجوان کم عمری میں ہی اس پیشے سے وابستہ ہو جاتے ہیں جس کی وجہ سے وہ تعلیم حاصل نہیں کر پاتے۔ دیہی ساحلی علاقوں میں 12 سے 15 سال کے بچے سمندر میں شکار کرنے جاتے ہیں جبکہ 18 سال سے کم عمر کے ہزاروں نوجوانوں کا پیشہ بھی یہی ہے۔مکران اور لسبیلہ کے ساحلی علاقوں میں تعلیمی ریشو کم ہونے کی وجہ بھی یہ بتائی جاتی ہے کہ ساحل کے قریب بستیوں کے نوجوان نوعمری میں ماہی گیری کے پیشے کو اپناتے ہیں۔

جب میں نے ایک ماہی گیر سے پوچھا کہ آپ اپنے بچوں کو تعلیم کیوں نہیں دلواتے تو اس کا جواب تھا،”میرا بچہ پڑھ کر کیا کرے گا؟ اسے بڑے ہو کر بھی سمندر میں ہی جا کر شکار کرنا ہے۔ آج اگر جائے گا تو بڑا ہو کر میرا بوجھ ہلکا کر سکے گا۔”

بلوچستان کے ہزاروں تعلیم یافتہ بے روزگار نوجوانوں کو دیکھتے ہوئے یہ بات وزن رکھتی ہے۔جبکہ دیہی علاقوں کے ماہی گیر ان پڑھ ہونے کی وجہ سے اپنے بچوں کو اعلی تعلیم دلانے کی بجائے سمندر میں شکار کے لئے لے جانے کو ترجیح دیتے ہیں جبکہ شہری علاقوں میں ماہی گیروں کے بچے تعلیم کی طرف زیادہ راغب ہیں۔

بلوچستان کے ساحلی علاقوں میں ماہی گیروں کی ایک قسم ایسی بھی ہے جو کشتیاں استعمال نہیں کرتے۔ یہ ماہی گیر ساحل کے قریب ہی اپنے جال لگا کر مچھلیاں پکڑتے ہیں جنہیں وہ مقامی مارکیٹ میں فروخت کر کے اپنی روزی روٹی کا بندوبست کرتے ہیں۔

بحرِ بلوچ میں مچھلیوں اور جھینگوں کی اعلیٰ اور کچھ نایاب نسلیں پائی جاتی ہیں جو اگرچہ عالمی منڈی میں مہنگے داموں بکتی ہے مگر مقامی ماہی گیروں سے سستے داموں خریدی جاتی ہیں۔ 

اس کا نتیجہ ہے کہ مقامی ماہی گیر جدید سہولیات سے محروم کسمپرسی کی حالت میں زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔ ملکی معیشت کو سالانہ ان ماہی گیروں کی بدولت کروڑوں ڈالر کا زرِ مبادلہ حاصل ہوتا ہے مگر ماہی گیروں کی حالت عرصہ دراز سے جوں کی توں ہے۔سمندر میں شکار کے دوران سہولیات کم ہونے کی وجہ سے ہر سال بہت سے ماہی گیر سمندر کی بے رحم موجوں کا شکار ہو کر زندگی ہار جاتے ہیں۔

حکومت کی طرف سے ان کے لواحقین کے لئے کسی قسم کی مدد نہ ہونا ان کو مزید مسائل سے دوچار کرتا ہے۔ماہی گیری ایک ایسا پیشہ ہے جو ہزاروں سال سے چلتا آ رہا ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ اس میں تبدیلیاں اور جدت آتی رہی ہے۔ بلوچستان میں لاکھوں لوگ اس پیشے سے وابستہ ہیں، اس کے باوجود حکومت اس صنعت کے فروغ کے لئے کوئی اقدامات نہیں کر رہی۔ اس سلسلے میں ایک وجہ یہ بھی بتائی جاتی ہے کہ ماہی گیروں کو لیبر کا درجہ حاصل نہیں۔ 

حکومتِ بلوچستان کی طرف سے انہیں لیبر قرار نہ دئیے جانے کی وجہ سے بھی ماہی گیر بہت سی سہولیات سے محروم ہیں۔اس لئے ماہی گیروں کا حکومتِ بلوچستان سے مطالبہ ہے کہ وہ انہیں لیبر کا درجہ دے تاکہ ماہی گیری کی صنعت میں جدت آسکے اور اسے فروغ مل سکے۔ اس کے علاوہ ان کا مطالبہ ہے کہ ان کے بچوں کو روزگار مہیا کیا جائے اور ساحل بلوچستان کی لمبی پٹی پر چھوٹے چھوٹے بندرگاہ قائم کئے جائیں تاکہ طوفان کی صورت میں ماہی گیر تیزی سے محفوظ مقام پر پہنچ سکیں۔ 

دنیا کے دوسرے ممالک ماہی گیری کی صنعت سے سالانہ اربوں ڈالر کماتے ہیں۔ اگر حکومتِ بلوچستان اس صنعت پر توجہ دے تو یہ صنعت صوبے، ملک اور عام عوام کے لئے انتہائی نفع بخش ہو سکتی ہے۔

بعض ماہرین کے مطابق بلوچستان کے ساحل پرشکار میں اضافے سے مچھلیوں کے کئی نسل ناپید ہورہے ہیں جبکہ غیر قانونی فشنگ بھی ایک المیہ ہے کیونکہ وائر نیٹ اور گجھہ کے استعمال سے ماہی گیری کی صنعت پر اس کے منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں جبکہ موسم گرما مچھلیوں کے انڈہ دینے کاوقت ہوتا ہے اس وقت شکار پر پابندی کے باوجود ماہی گیری کی جاتی ہے۔حالانکہ ہمسایہ ملک ایران میں جون اور جولائی میں مچھلیوں کے شکار سمیت خرید و فروخت بھی نہیں ہوتی۔