|

وقتِ اشاعت :   August 3 – 2017

یہ ایک خوش آئند عمل ہے کہ نواز شریف کی نااہلی اور سیاست سے اس کی تاحیات برطرفی کے بعد پاکستان میں جمہوریت ڈی ریل نہیں ہوئی۔ کسی بھی طبقہ ‘ گروہ یا ادارے کی طرف سے یہ کوشش نہیں کی گئی کہ جمہوریت کو ڈی ریل کیاجائے ۔

تمام اداروں ‘ سیاسی جماعتوں اور انفرادی طورپر سیاستدانوں نے اس بات کو یقینی بنایا کہ اقتدار پر امن اور با وقار طریقے سے نئے وزیراعظم کو منتقل ہو،اور یہی سب کچھ ہوا۔

پانچ سیاسی پارٹیوں نے نئے وزیراعظم کے انتخاب میں حصہ لیا اور انتخاب کو کامیاب بھی بنایا۔ انتخاب کے اختتام پر نئے وزیراعظم کو مبارک باد بھی دی گئی اور سب نے اس بات کا واضح اشارہ دیا کہ وہ جمہوری نظام کے حق میں ہیں اور اس کو کامیابی سے چلانا چاہتے ہیں ۔

تمام اپوزیشن پارٹیوں کے برعکس عمران خان کے تحریک انصاف میں مستقل مزاجی کا فقدان ہے ، نئے وزیراعظم کے خلاف وہ کسی بھی وقت کچھ بھی کر سکتے ہیں ،ان کا رد عمل سیاسی نہیں ہے ، زیادہ تر ذاتی اور جذباتی ہے ۔

اس لیے دو خواتین رہنماؤں ناز بلوچ اور عائشہ گلالئی نے ان کے خلاف سنگین الزامات لگائے کہ ان کی موجودگی میں خواتین کی عزت محفوظ نہیں ہے۔

ابھی تک تحریک انصاف نے ایک سیاسی پارٹی کا طرز عمل نہیں اپنایا بلکہ آج بھی وہ ایک پارٹی کے بجائے لوگوں کا احتماع ہے ، منظم سیاسی پارٹی نہیں ہے ان دو خواتین کارکنوں کے استعفیٰ کے بعد تحریک انصاف پر سیاسی حملے شروع ہوچکے ہیں ان سے ہر ادارہ نالاں نظر آتا ہے ، اگر کبھی ان اداروں اور مخالفین نے ایک متحدہ محاذ کسی وقت بنا لیا تو تحریک انصاف کا شیرازہ بکھرنا شروع ہوجائے گا۔

تاہم سب سے اہم بات نئی حکومت کی ہے، خاقان عباسی ایک آزاد خیال اور مثبت سوچ رکھنے والے انسان ہیں ، شاید وہ نواز شریف کی غلامی اور ان کی اطاعت قبول نہ کریں ’ تاہم اس کا مطلب یہ بھی نہیں ہے کہ وہ نواز شریف کو بالکل نظر انداز کریں گے یا ان کی حکم عدولی کریں گے۔ بہر حال ریاست اور ریاستی امور چلانے میں وہ نواز شریف سے ایک شریفانہ فاصلہ ضرور رکھیں گے۔

ملک کی سیکورٹی ان کی توجہ کا سب سے بڑا مرکز ہوگا موجودہ صورت حال میں پاکستان چاروں اطراف سے خطرات میں گھرا ہوا ہے ۔

افغانستان ‘ امریکا ‘ بھارت اتحاد پاکستان کی سلامتی اور خود مختاری کے لئے سب سے بڑا خطرہ ہے نئی حکومت کو بھارت کے علاوہ مغربی سرحد پر خطرات کا سامنا ہے ۔ ایران سے بھی تعلقات معمول کی سطح پر نہیں ہیں ۔

ادھر سعودی عرب بھی یمن کے خلاف جنگ میں اتحادیوں کے ساتھ مصروف ہے ۔ گلف کی اس جنگ میں بلوچستان ایک فرنٹ لائن اسٹیٹ ہے کیونکہ یہ جنگ ساحل مکران پر بھی لڑی جا سکتی ہے ۔

بنیادی معاملہ ملک کی سلامتی اور خودمختاری ہے ،حکومت کی ذمہ دار ی ہے کہ موجودہ صورت حال میں ملک کی سلامتی کو یقینی بنائے اور اس کے لئے عوام کو اعتماد میں لے۔ نئی حکومت کے قیام کے بعد سیاسی محاذ آرائی ختم ہونی چائیے۔ نواز شریف اپنے تمام عیوب کے ساتھ سیاست سے رخصت ہوچکے ہیں ’ اب نیا مقتدر اعلیٰ آچکا ہے ان سے سیکورٹی معاملات میں ہر پاکستانی شہری تعاون کرے گا بلکہ تمام سیاسی پارٹیاں اور ملک کے تمام ادارے ان سے تعاون کریں گے۔

امید ہے کہ سیکورٹی کے خدشات کے پیش نظر افغانستان سے تمام مراعات اور سہولیات واپس لیا جائے گااور سب سے پہلے تمام افغان غیر قانونی تارکین وطن کوافغانستان واپس بھیجنے کا انتظام کیا جائے گا ۔

اب افغانستان ایک آزاد اور خود مختار ملک نہیں رہا یہ امریکی اور بھارتی اتحاد کا حصہ بن چکا ہے ، اس کے ساتھ بھی یہی طرز عمل اپنایا جائے ۔

افغان مہاجرین کو اقوام متحدہ کے معاہدے کے تحت واپس بھیجا جائے مگر غیر قانونی تارکین سے کوئی رعایت نہیں برتی جائے کیونکہ وہ ریاست کے لئے شدید خطرہ ہیں کیونکہ وہ ہر طرح سے آزاد ہیں اور کسی بھی وقت کوئی بڑی کارروائی کر سکتے ہیں ۔ اس لیے ان کا فوری طور پرملک سے انخلاء ضروری ہے ۔