|

وقتِ اشاعت :   August 5 – 2017

چھوٹے  صوبوں میں اکثریتی رائے یہ تھی کہ نواز شریف صرف اور صرف پنجاب کے وزیراعظم تھے پاکستان کے نہیں ۔

نواز شریف نے سندھ‘ بلوچستان اور کے پی کے کے ساتھ انصاف نہیں کیا ان کی ساری توجہ پنجاب کے معاملات اور اس کی ترقی پر ہی مرکوز رہی ۔

بلوچستان کا آخری میگا پروجیکٹ کچھی کینال کو پہلے مرحلے کی تعمیرات مکمل کرنے کے بعد بند کردیا گیا ۔ معلوم ہوتا ہے کہ افسر شاہی نے کچھی کینال لوٹ مار کے لئے بنایا تھا بلوچستان کے عوام کے لئے نہیں ۔

پورے پروجیکٹ کی لاگت کا تخمینہ پچاس ارب روپے لگایا گیا تھا جبکہ صرف پہلے مرحلے کی تعمیرات پر 80ارب روپے کے اخراجات آئے۔

گزشتہ پچیس سالوں سے یہ منصوبہ تکمیل کے مراحل طے کررہا ہے اور اب تک صرف اس کا پہلا مرحلہ مکمل ہوا ہے۔

اب دوسرے اور تیسرے مرحلے کی تعمیرات روک دی گئیں ہیں۔ اسی ارب روپے سرکاری اہلکاروں نے ہڑپ کر لیا ۔

اس پورے واردات میں وفاقی حکومت کہیں نظر نہیں آئی نواز شریف کو اس کی قطعاً پرواہ نہیں تھی کہ بلوچستان اور اس کے آخری میگا پروجیکٹ کے ساتھ کیا سلوک ہورہا ہے ۔

پی آئی اے اور اسٹیل ملز میں سندھ کے مفادات تھے، شروع سے لے کر آخر تک نواز شریف اور موجودہ گورنرسندھ بضد تھے کہ ان اداروں کو نیلام کیاجائے اور کسی دوست کے ہاتھوں فروخت کیاجائے ۔

پورے چار سالوں میں بلوچستان میں کوئی ایک بھی قابل ذکر اسکیم شروع نہیں کیا گیا ۔ سرکاری اطلاعات کے مطابق بلوچستان میں غربت کی شرح 71فیصد تک پہنچ گئی ہے ۔

18ویں ترمیم میں کچھ مراعات اور اختیارات صوبوں کو دیں گئیں لیکن اس دن سے لے کر آج تک 18ویں ترمیم کو نواز شریف اور اس کے ساتھیوں نے قبول نہیں کیا۔

اس کی واضح مثال مشترکہ مفادات کی کونسل ہے جس کے اجلاس شاذو نادر ہی ہوتے تھے ۔

اگر ہوتے تھے تو کم سے کم وقت چھوٹے صوبوں کے معاملات پر بحث نہیں ہوتی تھی اور نواز شریف زیادہ تراپنے احکامات صادر کرتے تھے ۔

گزشتہ چار سالوں میں چھوٹے صوبوں کے عوام کو یہ کبھی احساس ہی نہیں ہوا کہ مشترکہ مفادات کونسل نامی کوئی ریاستی ادارہ ہے جہاں ان کے جائز مفادات کو تحفظ دیاجاتا ہے ۔

اب نئے وزیراعظم نے یہ اعلان کردیا ہے کہ وہ نواز شریف کی پالیسیوں کا تسلسل بر قرار رکھیں گے ہم ان سے یہ توقع رکھتے ہیں کہ نواز شریف کے تمام منفی اقدامات اور منفی سوچ کی پیروی نہ کریں صرف اور صرف ان کی اچھی پالیسیوں پر کاربند رہنے کی کوشش کریں اگر کوئی ہیں ۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ چھوٹے اور کمزور ترین صوبوں کو یہ واضح احساس دلائیں کہ پاکستان ایک وفاق ہے اوراس میں تمام وفاقی اکائیوں کے حقوق برابرہیں، صرف ایک صوبے کو برتری حاصل نہیں ہے ۔

شہباز شریف نے بیرونی ممالک کے طوفانی دورے کیے اور تقریباً پچاس ارب ڈالر کے سودے کئے ان کا زیادہ تر تعلق چین سے ہے اور یہ تمام پچاس ارب ڈالر کی سرمایہ کاری صرف اور صرف پنجاب تک محدود ہوگی ۔

چھوٹے صوبوں میں احتجاج ہوا تو فوراً اس تمام سرمایہ کاری کو سی پیک کانام دیا گیا حالانکہ اس تمام رقم سے چین کی براہ راست پنجاب میں سرمایہ کاری ہورہی ہے جو وفاقی حکومت کی ایماء پر ہوئی ہے اب اس کو سی پیک کا نام دے کر اس کا دفاع کیاجارہا ہے۔

چند ایک غیر اہم پروجیکٹس کو اس میں شامل کرنے کے بعد اب دعویٰ کیا جارہا ہے کہ دوسرے صوبوں میں بھی چند ایک ارب ڈالر کی سرمایہ کاری ہورہی ہے ۔

پاکستان کا مفاد اس میں ہے کہ صوبوں کے درمیان معاشی تضادات نہ ہوں، معاشی ترقی متوازن اورمساوی ہو ۔

بلوچستان میں ایک سال میں وفاق صرف بارہ ارب روپے خرچ کرے اور پنجاب میں ایک ہزار ارب روپے ، اس سے یقیناًنفرتیں بڑھیں گی ۔