|

وقتِ اشاعت :   August 8 – 2017

کسی بھی قوم کی تاریخ میں اچھے اور یادگار ایام کی طرح ایسے ایام بھی لازماً ہوتے ہیں جن سے ان کی تلخ یادیں وابستہ ہوتی ہیں قومیں جب اپنے قومی ایام مناتی ہیں یا اپنے اچھے وقتوں کو یا د کرتی ہیں تو برے وقتوں اور ان ایام کی یاد بھی لازماً انہیں آتی ہیں جن سے ان کی بری اور تلخ یادیں وابستہ ہوتی ہیں دنیا کی ہر قوم کی طرح پشتونوں اور بلوچوں میں بھی ایسے ایام ہیں۔

8اگست2016ء کا دن بھی انہی ایام میں سے ایک ہے جن سے پشتونوں اور بلوچوں کی انتہائی تلخ یادیں وابستہ ہوچکی ہیں جب کوئٹہ کے سول ہسپتال میں ایک ایسے واقعہ رونما ہوا جو صرف پشتون بلوچ ہی نہیں بلکہ کوئٹہ سمیت پورے بلوچستان کی تاریخ میں ایک خونیں باب کی حیثیت سے ہمیشہ ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔

یو ں تو بلوچستان کا ہر مہینہ اب ہم کو پشتون بلوچ شہداء کی یاد دلاتا ہے لیکن خاص طور پر اگست کے مہینے میں یہ یاد اور شدید ہوجاتی ہے 12اگست 1948کو بابڑہ میں فخرافغان باچاخان کی خدائی خدمت گار تحریک کے نہتے اور پرامن جلسے پر فائرنگ کرکے خونی باب رقم کیا گیا باچاخان نے اس روز اپنے چھ سو ساتھیوں کی لاشیں اٹھائیں تب سے اب تک ہر سال اگست کے مہینے میں بابڑہ کے شہیدوں کی یاد منائی جاتی ہے۔

یہاں بلوچستان میں 26اگست 2006کو سابق گورنراور جے ڈبلیو پی کے سربراہ نواب اکبر بگٹی کو 79سال کی عمر میں ایک آپریشن میں شہید کیا گیا اور اب 8اگست 2016کو سول ہسپتال کوئٹہ میں خودکش حملے کے ذریعے خون کی ہولی کھیلتے ہوئے 80وکلاء و عام شہریوں کو شہید کیا گیاآج ان شہداء کی پہلی برسی عقیدت و احترام کے ساتھ منائی جارہی ہے اور اس دن کی مناسبت سے کوئٹہ سمیت پورے صوبے میں مختلف تعزیتی و احتجاجی پروگرام ترتیب دیئے گئے ہیں ۔

حالیہ برسوں میں اگست کا مہینہ لاء ینڈ آرڈر اور پشتون بلوچ علاقوں کی مخصوص صورتحال کی وجہ سے انتہائی حساسیت کا حامل بن چکا ہے خاص طور پراس مہینے میں سیکورٹی انتظامات انتہائی سخت کردیئے جاتے ہیں امسال بھی اس کا مشاہدہ کیا جاسکتا ہے کہ کس طرح سے شہر میں سیکورٹی ایک دم سے بڑھادی گئی ہے ۔

گزشتہ سال بھی سیکورٹی انتظامات اتنے ہی سخت کئے گئے تھے مگراس کے باوجود آٹھ اگست کے سانحے کا رونما ہونا بہت سے سوالات کو جنم دیتا ہے ۔ سب سے پہلا سوال جو اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے اسمبلی فلور پر بھی بار بار اٹھایا جاتا رہا وہ یہ ہے کہ بڑے پیمانے پر سیکورٹی اقدامات کے باوجود آخر اتنا بڑا سانحہ کیسے رونما ہوا جن عناصر نے یہ انتہائی اقدام اٹھایا ۔

آخر ان کا مطلب کیا ہے؟ وہ چاہتے کیا ہیں؟اس سے ان کو کیا فائدہ ملا ،یا ملے گا ؟ اس سانحے کے ذریعے کس کو یاکن قوتوں یا عناصر کو خبردار کیا گیا ہے۔؟ بلوچستان کسی زمانے میں امن وامان کی مثالی صورتحال کی بدولت اپنی مثال آپ تھا مگر ڈیڑھ دو عشروں کے دوران صورتحال انتہائی بدل چکی ہے ۔

یہ درست ہے کہ صوبے میں گزشتہ پندرہ سال سے حالات کسی طور پر پشتون بلوچ وطن اور خطے کیلئے سود مند نہیں رہے مگر 2013ء کے عام انتخابات کے بعد بننے والی حکومت جس میں قوم پرست جماعتیں بھی اہم شراکت دار ہیں کے بعد عام عوام نے قیام امن کے حوالے سے بہت زیادہ امیدیں وابستہ کیں یہ توقع ہوچلی تھی کہ حالات مکمل طو رپر نہ سہی کچھ تو بہتر ہوجائیں گے مگر مقام افسوس ہے کہ کوئٹہ سمیت اندرون بلوچستان یکے بعد دیگرے بڑے سانحات اور واقعات کا سلسلہ جاری رہا جس میں 8اگست2016ء کا خونی واقعہ بھی شامل ہے ۔

گزشتہ چار سالوں کے دوران یہاں بم ھماکوں اور ٹارگٹ کلنگ کے واقعات ہوتے رہے لیکن حکومت اور سیکورٹی ادارے پھر بھی سب کچھ ٹھیک کا راگ الاپتے رہے حکومت بننے کے کچھ ہی عرصے بعد مستونگ کا سانحہ رونما ہوا اور اور اس کے بعد حالات یکدم پھر سے خراب ہونا شروع ہوگئے۔

لیکن سانحہ آٹھ اگست کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا ہے اس سانحے نے ژوب سے گوادر تربت اور چمن سے حب اور پشین سے نوشکی پورے صوبے کو ہلاکر رکھ دیا کوئی ایسا گھر ،گلی، کوچہ اور محلہ نہیں ہے جو سوگ میں نہ ڈوبا ہو ۔

اس سانحے میں بعض سیاسی جماعتوں کے رہنماوں کے بھائی اور بیٹے، سینئر وکلاء کے علاوہ میڈیا سے وابستہ افراد بھی شہید ہوگئے یعنی اس سانحے نے بلوچستان کے تمام شعبوں کو اس قدر متاثر کیا کہ اس نقصان کا پورا ہونا مشکل ہی نہیں ناممکن بھی ہے اس سانحے کے زیادہ تر شہداء پشتون اور بلوچ قوم سے تعلق رکھتے ہیں ایک لحاظ سے دیکھا جائے تو بلوچستان اور باالخصوص کوئٹہ کے انتہائی پڑھے لکھے شعبے سے تعلق رکھنے والے تھے اس لئے اس سانحے پر آنکھ اشکبار ہوئی ۔

عوامی نیشنل پارٹی کے صوبائی صدر اصغر خان اچکزئی کے چھوٹے بھائی عسکر خان ایڈووکیٹ بھی اس سانحے میں شہید ہوگئے ان کی صرف ایک بیٹی تلوسہ ہے ۔ نامور قانون دان بازمحمد کاکڑ ایڈووکیٹ بھی شہید ہوگئے ان کا بیٹا آرین خان آج بھی اپنے والد کی واپسی کی راہ تک رہا ہے ۔

بلوچستان نیشنل پارٹی کے سینیٹر ڈاکٹر جہانزیب جمالدینی کے جوانسال سال صاحبزادے سنگت جمالدینی بھی شہید ہوگئے ۔پشین کے 9بہنوں کا اکلوتا بھائی ضیاؤ الدین ایڈووکیٹ شہید ہوگیا ان کی بھی صرف ایک بچی ہے ۔ اب کس کس شہید کی بات کی جائے جس جس کی بھی بات کی جائے تو دل خون کے آنسو روتا ہے ۔

اس سانحے کے جو بھی ماسٹر مائنڈ تھے ان کی پلاننگ کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا حالانکہ اس سے قبل اس طرح اور نوعیت کے چار واقعات رونما ہوئے تھے۔اس سانحے کو پلان کرنے والوں کو اچھی طرح سے معلوم تھا کہ وکلاء برادری کے انتخابات ہونے والے تھے ۔

ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے انتخابات 13اگست کو منعقد ہوناتھے جس میں چار پینل حصہ لے رہے تھے ان میں سے ایک پینل کی سربراہی بازمحمد کاکڑایڈووکیٹ کررہے تھے وہ ایک معروف اور ممتاز وکیل تھے اورانہوں نے وکلاء تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا اس کے علاوہ انہوں نے مسنگ پرسنز کے حوالے سے بھی بات خاصی جدوجہد کی تھی ۔

دوسرے پینل کے سربراہ عبدالرؤف عطاء ایڈووکیٹ تھے وہ دو پینلوں کے مشترکہ امیدوار تھے وہ اس سانحے میں شدید زخمی ہوئے اور کئی ہفتوں تک زیر علاج رہے ۔ تیسرے پینل کے سربراہ بلال کاسی ایڈووکیٹ تھے جنہیں اس روز گھرسے نکلتے وقت ٹارگٹ کیا گیا ان کے قتل کی اطلاع ملتے ہی سینئر اور جونیئر وکلاء دوڑے دوڑے ہسپتال پہنچے اور وہیں پھر قاتلوں کو سافٹ ٹارگٹ مل گیا ۔

اس سانحے میں جو وکلاء شہیدہوئے ان کا تعلق انہیں پینلز سے تھا ان میں سے بیشتر سیاسی حلقوں سے تعلق رکھتے تھے جس کی وجہ سے ان کی سیاسی اور سماجی تعلقات کافی وسیع تھے بیشتر سینئر وکلاء کی وجہ سے مقامی آبادی کو نہ صرف ریلیف ملا کرتا تھا بلکہ صوبے کی حالیہ صورتحال اور حالات میں وکلاء کے چیمبرز دراصل سیاسی گپ شپ کے ادارے بھی تھے ۔

اس سانحے کے بعد اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف اور آرمی چیف فوری طور پر کوئٹہ پہنچ گئے لیکن جن لوگوں کو وزیر اعظم اور آرمی چیف سے بھی پہلے کوئٹہ پہنچنا چاہئے تھا وہ نہ پہنچ سکے اور اسلام آباد میں ہی رہ گئے ۔

دوسری جانب بلوچستان حکومت جس کی سربراہی ن لیگ کے پاس ہے لیکن اس کے اتحادیوں میں پشتون اور بلوچ قوم پرست بھی شامل ہیں ان پر عوامی تنقید میں اضافہ ہورہا ہے کہ جب یہ جان لیوا سانحہ ہوا تو حکومت میں شامل پشتون بلوچ حکومتی قوم پرست جماعتوں کے قائدین اور وزراء کہا ں تھے ؟ وہ کیوں نظر نہیں آئے؟ دوسری جانب سے حکومت کی جانب سے جب اس سانحے پر یہ کہا گیا کہ اس کا نشانہ سی پیک تھا ۔

حکومت کے اس موقف پر پشتون نوجوان طبقہ انتہائی سخت سوالات اٹھا رہے ہیں کہ جب ہم اپنے پیاروں کی لاشیں اٹھا رہے تھے تو حکومت کو سی پیک کی پڑی ہوئی تھی یہ سوالات آج ایک سال کے بعد بھی اٹھائے جارہے ہیں اس سانحے کی وجہ سے کوئٹہ سمیت پورا صوبہ غم اور سوگ کی کیفیت میں ڈوب گیا بلوچستان میں گزشتہ ڈیڑھ عشرے کے دوران بدامنی ، ٹارگٹ کلنگ ، بم دھماکوں اور دہشت گردی کے واقعات میں بلوچستان کے جتنے نوجوان اپنی زندگیوں سے گئے ہیں ۔

ان کی صحیح تعداد کسی کو نہیں معلوم ۔کوئی نہیں جانتا کہ اب تک کتنے ہزار لوگ مارے جاچکے ہیں ان پندرہ سالوں میں مارے جانے والوں میں کئی پشتون اور بلوچ افسران بھی شامل ہیں ۔سانحہ کوئٹہ پر مولانا محمد خان شیرانی نے قومی اسمبلی میں جو کچھ کہا وہ بھی لوگوں کی آنکھیں کھولنے کیلئے کافی ہے۔

چند سال قبل ٹارگٹ کلنگ اور اغواء برائے تاوان کا سلسلہ چل پڑاتھا ڈاکٹر،ٹیچر، شاعر ، فنکار، طلبہ ،صحافی ،سیاسی کارکن اور سیاسی رہنماؤں تک کو ٹارگٹ کیا گیا لیکن اب ٹارگٹ کلنگ کو ایک نیا رنگ دے دیا گیا ہے۔

بلوچستان میں اجتماعی قبروں کی برآمدگی کے بعد اجتماعی قتل عام کیا گیا جس میں شہید ہونے والے سب کے سب پڑھے لکھے اور انتہائی باصلاحیت نوجوان،اور سینئر وکلاء شامل تھے بعض سیاسی رہنماؤں کا خیال ہے کہ ایک منصوبہ بندی کے تحت صوبے میں تعلیم،صحت،تجارت یعنی ہر سطح پر قابل اور باصلاحیت افراد کو صفحہ ہستی سے مٹایا جارہا ہے جس کا مقصد یہ ہے کہ صوبے کو ذہنی اور دانش ورانہ طور پر اپاہج بنایا جائے بعض حکومتی شراکت دار کہہ رہے ہیں کہ یہ خودکش حملہ اور سانحہ دراصل سی پیک کی راہ میں رخنہ ڈالنے کی کوشش ہے ۔

لیکن یہاں کے سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ اس جان لیوا سانحے کو سی پیک سے نتھی کرنے کا جوازہی نہیں بنتا ۔

آخر کس طرح یہ سانحہ سی پیک کی راہ میں دیوار بن سکتاتھا ایسی باتوں سے صوبے کے عوام اور شہداء کے لوحقین کو مطمئن نہیں کیا جاسکتا۔

لواحقین اس وقت مطمئن ہوتے جب حکومتی اراکین سانحے کے فوراً بعد ہنگامی بنیاوں پر تفتیش کرتے ہوئے اصل محرکات سامنے لاتے اور مستقبل میں اس طرح کے واقعات و سانحات سے بچنے کے لئے اپنی حکمت عملی وضع کرکے عوام کو اس حوالے سے اعتماد میں لیتے مگر افسوس کے ساتھ لکھنا پڑرہا ہے کہ ایسا کچھ بھی نہیں کیا گیا بلکہ آج ایک سال بعد بھی لواحقین کو مطمئن نہیں کیا جاسکاآج ایک سال بیت گیا مگر لواحقین کا غم اب بھی تازہ ہے۔

آیئے اللہ تعالیٰ کے حضور شہداء کے درجات کی بلندی کے لئے ہاتھ اٹھائیں اللہ تعالیٰ شہداء کے درجات بلند ، لواحقین کو صبر جمیل اور ہمارے حکمرانوں کو اور نہیں تو اپنی ناکامی کے اعتراف کی اخلاقی جرات عطا فرمائے۔