|

وقتِ اشاعت :   August 8 – 2017

اگست کا مہینہ شروع ہوتے ہی 8 اگست 2016ء کی صبح سول ہسپتال کوئٹہ میں وکلاء پر ہونے والے خودکش حملے سے پیدا ہونے والی دلخراش اور انسانیت سوز مناظر ذہن میں تسلسل سے گردش کرنے لگے تھے۔ یہی تصویر ذہن میں لئے حسب معمول رات سونے کی غرض سے بستر پر لیٹ گیا۔

آنکھ لگی ہی تھی کہ اچانک کمرے کے دروازے سے ایک انسان نما عکس میری طرف آہستہ آہستہ بڑھتا ہوا نمودار ہوا۔ جوں جوں وہ قریب آتا گیا۔ اس کی تصویر صاف ہوتی گئی۔ ایسے لگا جیسے تاریکی میں روشنی ابھر رہی ہے۔ جب وہ بہت ہی قریب آکر کھڑا ہوا تو یہ دیکھ کر کہ شہید عسکر خان ایڈووکیٹ میرے سامنے کھڑا ہے۔

میری حیرت کی انتہا نہ رہی میں نے دیکھا کہ وہ اسی کورٹ یونی فارم میں جو اس نے 8 اگست 2016ء کو پہنا ہوا تھا، میں ملبوس تھا اس کا سفید شرٹ اس کے شدید زخموں سے خون آلود تھا۔ وقفے وقفے سے اس کے کوٹ سے خون کے قطرے ٹپک رہے تھے۔ کمرے میں بچھی کارپٹ پر خون کے قطر گرنے سے پیدا ہونے والی آواز صاف طور پر میرے کانوں کے پردوں سے ٹکرا رہی تھی۔

اس سے پہلے کہ میں اس سے کچھ دریافت کرو وہ مجھ سے مخاطب ہوئے۔ امجد! ایک سال کے بعد اس کی آواز سنی تو پورے جسم پر لرزہ طاری ہوا میں ان کی طرف متوجہ ہوا تو انہوں نے کہا کہ 8 اگست کو سول ہسپتال میں شہید ہونے والے تمام وکلاء باز محمد کاکڑ، قاہر شاہ اور داؤد خان کاسی کی قیادت میں آپ کے گھر کے سامنے تشریف لائے ہیں۔ انہوں نے مجھے آپ کے پاس بھیج کر پوچھنا چاہتے ہیں کہ ہمارے قاتل کون ہیں؟ اور ہمیں کس گناہ کی سزا دی گئی؟

میں نے ہچکچاتے ہوئے سسکتی آواز میں بڑی مشکل سے اس سے یہ سوال کہا کہ آپ کو تو مرے ہوئے ایک سال ہوچکا ہے۔ آپ ابھی تک زندہ کیسے ہیں؟ میرے استفسار پر وہ گویا ہوئے۔ آپ کے اس سوال کا جواب میں بعد میں دوں گا۔ فی الحال میرے پاس وقت نہیں۔ میں اپنے دوستوں کے پاس واپس جارہا ہوں لیکن یہ یاد رہے کہ ہمیں 8 اگست تک سوال کا جواب چاہیے۔ بس وہ یہی آخری جملہ مکمل کرتے ہی اپنا رخ دروازے کی طرف موڑ کر کمرے سے باہر چلے گئے۔ان کی ایسی اچانک آمدورفت نے میرے جسم و جان پر سکتہ طاری کردیا۔

اور ساری رات صبح تک ان کا یہ سوال کہ ان کا قاتل کون ہیں اور انہیں کس گناہ کی سزا دی گئی۔ ذہن میں گردش کرتا رہا۔ سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ اس مشکل سوال کا جواب کیسے اور کہاں سے تلاش کروں۔ اور اس گمشدہ حقیقت کو کیسے دریافت کروں۔ یہی سوچتے سوچتے ذہن میں خیال آیا کہ کیوں نہ اس کار خیر کی ابتداء شہر کے جامع مسجد سے کروں۔
لہٰذا اسی بات کا کھوج لگانے کے لئے میں سب سے پہلے امام مسجد کی خدمت میں حاضر ہوا۔ امام مسجد جس کو ہمارے معاشرے میں یہ مقام حاصل ہے کہ انہیں علوم اور کھری معلومات کا منبع سمجھا جاتا ہے۔ نہایت آداب سے میں نے ان کے سامنے 8 اگست کے شہیدوں کا سوال رکھا کہ ان کا قاتل کون ہے؟ انہوں نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔ دیکھو بھائی! پشتو زبان کی ایک کہاوت ہے۔ ’’کہ جو رات قبر میں لکھی ہو، وہ گھر میں نہیں ہوسکتی۔‘‘ وہ مزید بیانی ہوئے۔ ان بے چارے وکیلوں کی اﷲ تعالیٰ مغفرت کرے، ان کی حیات پوری ہوچکی تھی۔ انہوں نے اسی دن اور اسی وقت مرنا ہی تھا۔ کسی نہ کسی طریقے سے ایک سیکنڈ آگے اور نہ ہی ایک سیکنڈ پیچھے۔۔۔

اس لئے ان کے قاتل ڈھونڈنے سے بہتر ہے کہ ان کے لئے دعائے مغفرت کیا جائے۔ ان کو اﷲ تعالیٰ نے شہادت کے ایک اعلیٰ مقام سے نوازا ہے اور ہر مسلم نوجوان کی یہی آرزو ہونی چاہیے کہ ہمارا عقیدہ ہے کہ جو کچھ تقدیر میں لکھا ہوتا ہے وہی ہو کے رہتا ہے۔ ان قاتلوں کے ہاتھ وکیلوں کا قتل ہوجانا تقدیر میں پہلے ہی سے نوشتہ تھا۔ امام صاحب نے سوالیہ انداز میں مجھ سے پوچھا کہ آپ ہی بتائیں کہ تقدیر کا لکھا کوئی تبدیل کرسکتا ہے۔ لاجواب ہوکر مجبوراً مجھے امام صاحب کی دلیل کی تصدیق کرنی پڑی۔

لیکن امام صاحب کی اس منطق نے مجھے انتہائی شش و پنج میں ڈال دیا۔ سوچا کہ جب یہ سب کچھ پہلے ہی سے تقدیر میں طے شدہ تھا تو پھر ان قاتلوں کا قصور کیا تھا اور شہید کو اعلیٰ مقام ملا کس بنیاد پر۔ انتہائی پریشانی کے عالم میں مسجد سے نکلا، جاتے ہوئے اچانک میرا سامنا میرے ایک پرانے کلائنٹ سے ہوا جس کو میں نے ایڈیشنل سیشن جج چمن سے بھری کرایا تھا جس پر الزام تھا کہ اس سے ایک خودکش جیکٹ برآمد ہوئی تھی۔

انہوں نے مجھے دیکھ کر مسرت کا اظہار کیا اور مجھے مسجد کے نزدیک واقع ایک ہوٹل پر ایک کپ چائے کی دعوت دی جس کو میں نے بخوشی قبول کیا۔ چائے پیتے ہوئے میں استقہامیہ انداز میں اس سے مخاطب ہوا کہ ’’یار! ایک سوال پوچھوں ناراض تو نہیں ہوگے!‘‘ اس نے کہا نہیں تو۔

میں نے پوچھا آپ کے خیال سے 8 اگست کو شہید ہونے والے وکلاء کے قاتل کون ہوسکتے ہیں؟ بنگاہ حیرت میری طرف دیکھتے ہوئے پوچھا کہ یہ سوال آپ مجھ سے کویں کررہے ہیں؟ میں نے کہا کہ آپ بہتر جانتے ہیں کہ میں آپ سے کیوں پوچھ رہا ہوں۔

تھوڑی دیر کے لئے خاموشی اختیار کرکے لمبی سانس لیتے ہوئے گویا ہوئے، وکیل صاحب سچ پوچھو تو غربت ہی وکیلوں کی قاتل ہے۔ میں نے حیرت سے اس کی طرف دیکھ کر پوچھا غربت! اس نے کہا کہ ہاں کیونکہ ایک غریب شخص کا بچہ ہی مصنوعی جنت کے فریب میں آکر خودکش حملہ کرکے اپنے بھائیوں کو قتل کرسکتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ زندگی کی ہر مسرت اور رنگینی سے محروم ہوتا ہے۔ ان کے خیال سے یہ زندگی ایک دھوکہ ہے۔

وہ اس مصائب و آلام سے بھری زندگی سے اپنی جان چھڑانا چاہتے ہیں۔ اپنی بات کی تائید میں وہ مزید مجھ سے استفہامیہ انداز میں کہتے ہیں کہ آپ ہی بتائیں کہ آج تک کسی امیر باپ کے بیٹے نے خودکش حملہ کیا ہے۔ یہ امیر لوگ اپنے سرمائے کی حفاظت اور اسے مزید بڑھانے کے لئے ان حملہ آوروں کی اخلاقی اور مالی امداد کرتے ہیں۔ وہ کبھی بھی اپنے بچوں کو نہیں بھیجیں گے۔

کیونکہ اپنے بچے سب کو پیارے ہوتے ہیں۔ اپنے کلائنٹ کی بات سن کر میری کنفیوژن اور بڑھ گئی۔۔۔ بعدازاں ایم اے جناح روڈ کوئٹہ پر جاتے ہوئے سول ہسپتال کے سامنے ایک فروٹ ریڑھی پر اپنے بچوں کے لئے رزق تلاش کرنے والے ایک سفید باریش بوڑھے شخص سے سامنا ہوا۔

اس سے پوچھا چچا! آپ کے خیال سے اس دن وکلاء کو کس نے شہید کیا۔ مجھے گھور کے بلند آواز میں بولے۔ مجھے کیا پتہ میرا تو اپنا بیٹا دل کی بیماری کی وجہ سے مرگیا۔ ڈاکٹروں کو پیسے چاہیے تھے اور میرے پاس بچوں کو کھلانے کے لئے نہیں تھے۔ میں آپ سب لوگوں سے پوچھتا ہوں کہ میرے بیٹے کا قاتل کون ہے؟

وہ مزید درد ناک لہجے میں بولے۔ اﷲ غارت کرے اس خودکش حملہ آور کا جس کی وجہ سے کئی دنوں تک میرے بچوں کو کھانا نصیب نہیں ہوا۔ انتہائی دلبرداشتہ ہوکر وہاں سے میں سیدھا سابق چیف جسٹس بلوچستان قاضی فائض عیسیٰ کے پاس پہنچا اور ان کے سامنے شہیدوں کا سوال یہ رکھا۔

انہوں نے فرمایا کہ کئی دنوں کی مسلسل محنت سے میں نے وہ تمام شواہد اکٹھے کئے ہیں جن میں اصل قاتلوں اور سہولت کاروں کے عکس گہری نظر رکھنے والوں کو نظر آسکتے ہیں اور میں نے حسب الحکم اپنی رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کرادی ہے۔ آپ جاکر وہاں سے معلوم کرو۔ حسب ہدایت میں سپریم کورٹ پہنچا اور ان کے سامنے یہی سوال رکھا۔

انہوں نے کہا کہ جسٹس قاضی صاحب کی کھینچی گئی تصویر ہمیں کچھ صاف نظر نہیں آرہی۔ ہم ان قاتلوں کو ضرور ڈھونڈ نکالیں گے۔ ہم سارے حقائق جیسا کہ ساری قوم کا حق ہے، کو بے نقاب کرکے منظر عام پر لائیں گے اور ذمہ داران کو کیفر کردار تک پہنچائیں گے۔ لیکن آپ کو پتہ ہونا چاہیے کہ پاکستان میں قاتل بڑے چالاک اور طاقتور ہوتے ہیں۔ وہ اتنی جلدی قانون کے شکنجے میں نہیں آسکتے۔ لیاقت علی خان اور بینظیر بھٹو جیسے بڑے بڑے لیڈروں کے قاتلوں کا بھی آج تک سراغ نہیں لگایا جاسکا۔ اس لئے ہم سمجھتے ہیں کہ آپ وقت سے پہلے آئے ہیں۔ قانون کا ایک مسئلہ اصول ہے۔’’ Justice Hurried is Justice Buried‘‘

یعنی انصاف کرنے میں تعجیل سے کام لینا انصاف کو دفن کرنے کے مترادف ہے۔لہٰذا مذکورہ بالا حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے ہمیں صحیح نتیجے پر پہنچنے کے لئے کئی سال درکار ہیں۔ سپریم کورٹ سے مطلوبہ جواب نہ پا کر میں بلوچستان کی وکلاء برادری کے پاس آیا اور ان سے اپنے ساتھیوں کے قاتلوں کے بارے میں دریافت کیا۔ ان میں سے کچھ ذمہ داران نے مجھے ہاتھ سے پکڑ کر کرسی پر بٹھایا اور دھیمی آواز میں بولے۔ اس خوف سے کہ کسی دوسرے کے کان تک یہ بات نہ پہنچ سکے۔

یار! دراصل بات یہ ہے کہ سانحے کے بعد وکلاء کے مابین کچھ فنڈز کی بے ضابطگیوں اور قیادت پر لڑائی شروع ہوئی ہے جیسے ہی یہ معاملات سلجھ جائیں گے آپ دیکھیں گے کہ ہم اپنے شہید ساتھیوں کے قاتلوں کو بے نقاب کرنے کے لئے کیسی زبردست تحریک چلائیں گے۔

میں نے پوچھا کہ یہ تنازعات کب تک ختم ہوجائیں گے؟ انہوں نے کہا کہ بہت جلد۔ انشاء اﷲ ہماری یہی جدوجہد اور اپنے شہیدوں کے ساتھ وفا رہی تو اگست 2018ء تک ہمارے تنازعات خود بخود ختم ہوجائیں گے۔ یہاں سے بھی مایوس ہوکر میں کولیشن گورنمنٹ کے منتخب وزیراعلیٰ جناب ثناء اﷲ زہری کی خدمت میں حاضر ہوکر ان کے سامنے وہی سوال رکھا۔

انہوں نے توقف کئے بغیر یکدم فرمایا کہ یہ دھماکہ انڈین خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ نے کروایا۔ ہماری گورنمنٹ کی فعال نیٹ ورک کی بنیاد پر ہمیں پہلے ہی سے پتہ تھا کہ صرف وہی یہ دھماکہ کریں گے۔ انہوں نے میری توجہ اپنی طرف مبذول کراتے ہوئے مزید کہا کہ آپ کو یاد ہوگا کہ جب آٹھ اگست کی صبح کو دھماکہ ہوا تو وکلاء کی نعشیں جائے واردات سے اٹھائی ہی نہیں گئی تھیں کہ میں نے یہ اعلان کیا کہ یہ دھماکہ کس نے کروایا ہے۔

اتنے واضح اعلان کے باوجود وکلاء نے غیر ضروری طور پر ایک جوڈیشل کمیشن کی تشکیل کروائی۔ آپ دیکھیں گے کہ اس جوڈیشنل کمیشن کا کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوگا۔ وہاں سے آکر میں عوامی نیشنل پارٹی بلوچستان کے صوبائی دفتر باچا خان مرکز پہنچا اور ان کی قیادت سے دریافت کیا کہ سانحہ 8 اگست کے بعد ہر ایک سیاسی جماعت اور تنظیم سے زیادہ آپ لوگ پیش پیش رہے ہیں۔

آپ لوگ بتائیں کہ سانحہ 8 اگست کے شہداء کے قاتل کون ہیں؟ انہوں نے جواب دیا۔ جنہوں نے 12 اگست 1948ء کو بابڑہ میں 8 سو بے گناہ انسانوں کا خون کیا۔ جنہوں نے ناحق باچا خان اور ولی خان پر انسانیت سوز مظالم ڈھائے۔

جنہوں نے خان شہید عبدالصمد خان اور شہید خان جیلانی، مولانا حسن جان اور بشیر احمد بلور کو شہید کیا۔ درحقیقت وہی وکیلوں کے قاتل ہیں۔ انتہائی پریشانی کے عالم میں کچھ آرام کرنے کی غرض سے اپنے گھر کی طرف روانہ ہوا۔ گھر پہنچ کر دیکھا کہ شہید عسکر خان کی 6 سالہ بیٹی تلوسہ میری بیٹی پلوشہ اور دیگر ننھی پریاں آپس میں کھیل رہی تھیں اور آپس میں محو گفتگو تھیں۔

ان کی شیریں گفتگو نے کچھ دیر کے لئے میری توجہ اپنی طرف کھینچ لی۔ ان میں سے ایک بچی نے پوچھا تلوسہ! آپ کے بابا گھر کیوں نہیں آتے؟ تلوسہ نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ میرے بابا بیمار ہوگئے تھے۔ اسے ہمارے گھر ایمبولینس میں لایا گیا تھا۔ میں نے خود اسے دیکھا وہ آرام سے سوئے ہوئے تھے۔ میرے چچا گران آغا(اس کا اشارہ اصغر خان اچکزئی کی طرف تھا) نے بتایا ہے کہ وہ ہسپتال میں ہیں۔ بڑی عید پر وہ آجائیں گے۔

جیسے ہی وہ آئیں گے میں تم سب کو اپنے بابا سے ملوا دوں گی۔ لوگ کہتے ہیں کہ میرے بابا مر گئے ہیں۔ وہ سب جھوٹ بولتے ہیں۔ میں نے خود انہیں دیکھا ہے۔ اس عید پر وہ ضرور آئیں گے۔ ان ننھی پریوں کے مابین ہونے والی بحث نے میری رگوں میں خون خشک کردیا۔

آرام کئے بغیر میں گھر سے واپس نکل گیا۔ ان سب کے ساتھ ملنے کے بعد میں قاضی عبدالسلام پشتو لائبریری میں گیا۔ وہاں پر الماریوں میں پڑی ہوئی کتابوں کے سامنے یہ سوال رکھا۔ ان سے پوچھا کہ آپ کے سینوں میں موجود ٹھوس تاریخی حقائق اور معاشرتی اصولوں کی بنیاد پر مجھے بتاؤ کہ ہمارے شہداء کے قاتل کون ہیں؟

کچھ دیر تحقیق کرنے کے بعد انہوں نے مجھے جواب ایک پشتو کہاوت کی صورت میں کچھ اس طرح دیا کہ ’’جہاں قاتل نامعلوم ہو وہاں قاتل حکومت ہوتی ہے۔‘‘ اسی لائبریری میں ایک کرسی پر بیٹھ کر خود سے پوچھا کہ شہداء کے قاتل کون ہیں۔ کچھ دیر کے بعد خودبخود من سے آواز آئی۔

کہ اگر آپ نے حقیقت کو بے نقاب کرنے کا گناہ کیا تو اس کی پاداش میں تم کو بھی سقراط کی طرح زہر کا پیالہ پینا پڑے گا۔ اس لئے زندہ رہنا چاہتے ہو تو چھپ رہو۔۔۔ گزشتہ رات ٹھیک 12 بجے شہید ایڈووکیٹ عسکر خان جواب لینے کے لئے بالکل اسی حالت میں جب وہ پہلی بار آئے تھے، تشریف لائے۔

میں نے ان کی خدمت میں ایک فائل جس میں تمام معلومات میں نے اکٹھی کی تھیں، پیش کردیں۔ وہ فائل لے کر اپنے شہید ساتھیوں کے پاس گئے۔ سب نے ایک دائرے کی شکل میں اکٹھے ہوکر فائل کو ملاحظہ کیا۔

تھوڑی دیر کے بعد میرے پاس آکر عسکر خان نے مجھے فائل واپس پکڑا دی اور کہا کہ ہمیں اپنا قاتل معلوم ہوگیا۔

بس یہ کہتے ہی واپس روانہ ہوئے۔ وہ کمرے کے دروازے تک پہنچے ہی تھے کہ میں نے آواز دی، عسکر خان!!! جیسے ہی میری آواز ان کی سماعت سے ٹکرائی وہ رک گئے۔ میں نے اسے کہا کہ جاتے جاتے دو باتوں کا پتہ دیجیے۔ اس نے میری طرف منہ کرکے کہا، جی پوچھ لو، کیا پوچھنا چاہتے ہو۔

میں نے پوچھا کہ آپ کے قاتل کون ہیں اور جب تم لوگ اس جہان فانی سے کوچ کرہی گئے ہو تو اپنے قاتلوں کو معلوم کرنے میں کیا راز چھپا ہوا ہے۔۔۔ میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر وہ گویا ہوئے کہ ’’ہم شہداء اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ ہمارا اصل قاتل ہماری قوم کی اجتماعی بے حسی ہے۔

ہم دنیاوی اور ظاہری اعتبار سے تو مر گئے ہیں لیکن حقیقی اور معنوی اعتبار سے ہم اب بھی اپنے ارمانوں اور مشن کی صورت میں زندہ ہیں اور زندہ رہیں گے۔

ایک خودکش تو کیا ہمیں دنیا کی کوئی طاقت نہیں مارسکتی۔ ہمیں مار سکتی ہے تو صرف ہماری قومی بے حسی۔

تمام ہم وطنو کو ہماری طرف سے ہماری اس پہلی برسی پر یہ پیغام پہنچا دینا!!!!! ‘‘ بس یہی آخری جملہ مکمل کرتے ہی عسکر خان واپس اپنے ساتھیوں سمیت روانہ ہوگئے۔