|

وقتِ اشاعت :   August 8 – 2017

وقت کاچلن سدا سے یہی رہا ہے کہ یہ کسی کے لئے نہیں رکتا اور اپنے ساتھ بری یابھلی یادیں لے کر چلنا ہی اس کاکام ہے وقت کا افسوس سبھی کو ہوتا ہے مگر یہ یاد کسی کو نہیں رہتا اچھی اوربری یادیں برقرار رہتی ہیں اور انسان انہیں یاد کرکے خوشی اور فخر محسوس کرتا ہے یا پھر غمزدہ ہو کر ناخوشگواریت کا احساس کرتا ہے۔

آج8اگست ہے ۔ بلوچستان کے سب سے بڑے اور مرکزی شہر صوبائی دارلحکومت کوئٹہ کے بیچوں بیچ سول سنڈیمن ہسپتا ل میں پیش آنے والے خونی واقعے کی پہلی برسی۔

جب ’’خون خاک نشیناں رزق خاک‘‘ ہوا۔ایک ایسا دن جب صوبے کا شاید ہی کوئی ایسا ضلع یا قصبہ ہو جس میں کوئٹہ سے تابوت نہ بھیجاگیا ہو۔

روشنیوں کے شہر کراچی اور کوئٹہ سے اندرون بلوچستان تابوت بھجوانے کی روایت کوئی نئی نہیں ۔ کافی عرصے سے یہ سب ہوتا رہا ہے ۔ اندھے واقعات ، بہرے حکمران اور کمزور حافظوں کے حامل معاشروں میں ایسا ہونا کوئی انہونی بات بھی نہیں ۔مگرآٹھ اگست کو تو حد ہی ہوگئی ۔

اس دن شاید ہی یہاں ایسی کوئی آنکھ بچی ہو جو اشکبار نہ ہوئی ہو۔ایک ایسا دن جب دن دیہاڑے شب خون مارا گیا ،جب عقل و شعور کی ایک کھڑی فصل پل بھر میں کاٹ دی گئی جب60گھروں کے روشن چراغ بجھا نے کے لئے ایک ایسی باد صر صر چلی کہ سب کچھ دھندلا دھندلا دکھائی دینے لگا۔

ٹھیک ایک سال قبل آج ہی کے دن ، صوبے کے مرکزی شہر اور دارلحکومت کوئٹہ کے وسط میں قائم صوبے کا قدیم سول سنڈیمن ہسپتال اس وقت معصوم انسانوں کے مقتل میں بدل گیا جب بلال انور کاسی کی میت لینے کے لئے ہسپتال آئے وکلاء اور ان کی کوریج کے لئے موجود صحافیوں کے بیچ ایک زور دار دھماکہ ہوگیا ۔ یہ دھماکہ بھی اپنی نوعیت کے دیگر دھماکوں کی طرح اپنے پہلو میں کشت وخون کا ایک بازار سجا کر چلا گیا۔

ایک ایسا منظر جس میں صرف آہ و بکا تھی ۔موہوم ہچکیاں، کرب و اذیت اور ابتلاء سے بھری چیخیں ،آن کی آن میں سب کچھ خلاص ۔ آج کوئٹہ کے ان شہداء کی پہلی برسی ہے ۔

آیئے بارگاہ الٰہی میں شہداء کے درجات کی بلندی کے لئے دعا کریں اور ان المیوں کی یاد تازہ کریں جو دن دیہاڑے شہر کے ریڈ زون سے بمشکل ایک کلو میٹر کے فاصلے پر یکے بعد دیگرے پیش آئے ۔ 8اگست2016ء بلوچستان کی معلوم تاریخ کے سیاہ ترین ایام میں سے ایک ہے۔

لئے نہیں کہ یہاں پہلے اس طرح کے واقعات رونما نہیں ہوئے گزرے دس برسوں کے دوران یہاں اس طرح کے درجنوں واقعات رونما ہوئے جن میں سیکورٹی اہلکاروں سے لے کر عام عوام تک ، علماء کرام سے لے کر سیاسی رہنماؤں تک ، تاجر ، صنعتکار، اقلیتی برادری کے لوگ غرض ہر طبقے کے لوگ نشانہ بنے یقیناًان سب کی زندگیاں قیمتی اور ان کا غم پہاڑ برابر تھا ایک ایک انسانی جان جو دہشت گردی اور وحشت پسندی کا نشانہ بنی قیمتی تھی ۔

مگر8اگست 2016ء کو سول ہسپتال کوئٹہ میں جو واقعہ پیش آیا اس میں بیک وقت ایسے درجنوں لوگ نشانہ بنے جن کی نہ صرف زندگیاں قیمتیں تھیں بلکہ اس کے ساتھ ساتھ وہ دوسروں کے لئے بھی تحریک کاباعث تھے ۔

یہ واقعہ بلوچستان کا نائن الیون تھا یہ 1935ء کے زلزلے جیسا ہر گز ہر گز نہیں تھا جو لوگ اسے اس حادثے سے تشبیہ دیتے ہیں وہ شاید نہیں جانتے کہ حادثات اور واقعات میں زمین و آسمان کا فرق ہوا کرتا ہے ۔

یہ تو بلوچستان کا نائن الیون تھا جس نے نہ صرف بلوچستان بلکہ ملک بھر اور پوری دنیا میں ہر اس شخص کے رونگھٹے کھڑے کردیئے جو انسان اور انسانیت کی اہمیت سے واقف و آگاہ ہے۔

سانحہ8اگست 2016ء نہ صرف کوئٹہ بلکہ بلوچستان کی معلوم تاریخ کا ایک ایسا زخم ہے جس کے درد سے اٹھنے والی ٹھیس شاید ہی کبھی کم ہوسکے البتہ وہ خلا ء کبھی پر نہیں ہوگا جو اس سانحہ میں شہید ہونے والوں کے جانے سے پیدا ہوا ہے ۔

8اگست2016ء کو سول ہسپتال کوئٹہ میں جو کچھ ہوا وہ بظاہر بلوچستان میں دہشت گردی اور انسانیت سوزی کے انہی واقعات میں سے ایک ہے جو یہاں گزشتہ چند سالوں سے تواتر کے ساتھ پیش آتے رہے ہیں اس تناظر میں اسے 1935ء کے زلزلے سے تشبیہ دینا ایک عجیب سی بات ہے 1935ء کا زلزلہ ایک آفت تھی جسے حادثاتی تناظر میں لیا جاتا ہے جبکہ8اگست کا واقعہ حادثاتی نہیں واقعاتی پس منظر کا حامل ہے اور حالات وواقعات جیسے بھی ہوں کہیں نہیں کہیں جاکر حاکم وقت سے ان کا کوئی تعلق ، کوئی رشتہ نکل آتا ہے مہذب معاشروں میں جب اس طرح کے واقعات ہوتے ہیں تو حاکموں کا ضمیر چیخنے لگتا ہے مگر ہمارے ایسا نہیں۔ بقول فیض

ہے اہل دل کے لئے اب یہ نظم بست و کشاد
کہ سنگ و خشت مقید ہیں اور سگ آزاد
بہت ہے ظلم کہ دست بہانہ جو کے لئے
جو چند اہل جنوں تیرے نام لیوا ہیں
بنے ہیں اہل ہوس مدعی بھی منصف بھی
کسے وکیل کریں کس سے منصفی چاہیں

8اگست2016ء کو ایک انسانی آفت دھماکے کی شکل میں رونما ہوئی اور دیکھتے ہی دیکھتے بلوچستان کے روشن چراغوں کو بجھا کر چلی گئی۔ایسے ایسے لوگ خاک و خون میں مل کر رہ گئے کہ آج ایک سال بعد بھی فقط ان کا نام سن کر جھرجھری سی آجاتی ہے ۔

شہداء کی لمبی اورایک ایسی فہرست جس میں شامل ہر نام اس صوبے کے لئے امید کی کرن تھا مگر وائے افسوس کہ امید کی کرنوں کو پیوند خاک کردیاگیا۔ شہداء کی فہرست پر نظرڈالیں پھرارد گرد کے حالات پر ۔

یقیناً کسی بھی انسان کی جان قیمتی ہوتی ہے اورخون کسی بھی انسان کا بہے وہ انمول ہوتا ہے مگر اس واقعے میں ایک ساتھ جس طرح سے معاشرے کے باشعور اور اعلیٰ تعلیمیافتہ افراد کو نشانہ بنایا گیا وہ ہماری جدید تاریخ کا ناقابل فراموش باب بن گیا ہے ۔

ایک ایسا باب میں جس میں حاکمان وقت سے لے کر ایک عام سیاسی کارکن تک سبھی کی حقیقت معلوم کی جاسکتی ہے۔

دھماکے کے ایک ’’ دھپ ‘‘ میں اڑتے ہوئے انسانی چیتھڑے، ایک دوسرے کا نام پکارتے زخمی ،لوگوں کو انصاف دلانے کا عزم لے کر عدلیہ سے منسلک ہونے والے کالے کوٹ پہنے وکیل جن کی موت قانون کے ترازو میں بے انصافی کے پلڑے کو اور بھاری کر گئی ۔

کیمرہ مین محمودد اورشہزاد جو فرض کی ادائیگی کرتے ہوئے کلمہ پڑھ کر شہید ہوگئے ، میڈیا مالکان کے سامنے بے بسی کی تصویر بنی صحافتی تنظیمیں جو یہ پتہ نہ چلاپائیں کہ کیونکر شہزاد اور محمود کے کیمرے انشورڈ تھے اور یہ کیمرے چلانے والے غیر انشورڈ۔

ڈاکٹر شہلا اور فوٹو گرافر جمال جیسے لوگ جو جان ہتھیلی پر لے کر اپنے اپنے فرض کی تکمیل میں لگے رہے اس ناقابل فراموش باب میں سبھی کا عکس دیکھا جاسکتا ہے۔ اس باب میں ہمیں یہ تلخ حقیقت بھی معلوم ہوجاتی ہے کہ صوبے کے سب سے بڑے ہسپتال میں ہنگامی حالات سے نمٹنے کی صلاحیت کتنی ہے اور یہ بھی پتہ چل جاتا ہے کہ ریڈزون کے دہانے پر واقع ہسپتال میں آدھے سے زیادہ طبی عملہ موجود ہی نہیں رہتا وہ بھی ایک ایسی حکومت کے دور میں جس نے اس شعبے میں ایمرجنسی کا نفاذ کیا ہے۔

مگر لگتا ہے یہاں ایمرجنسی سدھار کے لئے نہیں بلکہ بگاڑ کے لئے لگائی گئی ہے ۔ صوبے کی تاریخ کے اس سیاہ باب میں جھانکیں تو ہر طرف المیے دکھائی دیں گے ،صوبے کے سب سے قدیم ہسپتال میں ادویات کی عدم فراہمی کا المیہ ، بروقت طبی امداد نہ ملنے پر ایڑھیاں رگڑتے زخمیوں کا المیہ ، عوام کی نمائندگی کا دعویٰ رکھنے والوں کی عوام سے لاپرواہی کا المیہ، ایک المیے سے نکلتا دوسراالمیہ ۔ آج اس سانحے کو ایک سال پورا ہوگیا ہے ۔

اور عوامی نیشنل پارٹی نے آج شٹر ڈاؤن ہڑتال کی کال دی ہے جبکہ 7اگست کواس سانحہ کی پہلی برسی کی مناسبت سے کوئٹہ سمیت تمام ضلعی ہیڈ کوارٹرز میں احتجاجی مظاہرے کئے گئے اور ریلیاں نکالی گئیں کل یعنی9اگست کو ریفرنس کا بھی اہتمام کیا گیاہے آج کا دن جہاں شہدا ء کی یا د دلاتا ہے وہاں اس دن کا یہ تقاضہ بھی ہے کہ ہم اس بنیادی نکتے پر غور کریں کہ ہم اپنی آنے والی نسلوں کو پرامن ماحول کس طرح سے دے سکتے ہیں ۔

ساتھ ہی یہ بنیادی سوال بھی اٹھائیں کہ کوچہ اقتدار کے نووارد سیاسی رہنماء جو قوم اور سرزمین کا نام لیتے ہیں وہ کیونکر اتنے بڑے واقعے کے بعد بھی ڈھٹائی کے ساتھ ادھر ادھر بھٹک رہے ہیں۔

کیا وجہ ہے کہ اتنے بڑے واقعے کے بعد بھی کسی وزیر کو اتنی توفیق نہیں ہوئی کہ کم از کم اپنی ناکامی کا تو اعتراف کرتا کم از کم ان وزراء کوتو8اگست کے اگلے ہی روز مستعفی ہوجانا چاہئے تھا جنہوں نے 2013ء میں صوبے میں اس بات پر مٹھائی تقسیم کی تھی کہ یہاں آئین کے آرٹیکل235کے تحت گورنر راج کا نفاذ ہوا کیونکہ پیپلزپارٹی کی سابق حکومت عوام کے تحفظ میں ناکام ہوگئی تھی ۔

8اگست کا واقعہ ایک نہیں کئی حوالوں سے حکومت وقت کی ناکامی تھی جس کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ خود عدالت بھی اس امر پر حیرت کااظہار کرچکی ہے کہ ہسپتال میں زخمیوں کو طبی امداد دینے کی بجائے انہیں کسی دوسرے ہسپتال منتقل کیا جاتا ہے اور پھر خود وزیراعلیٰ یہ اعتراف کرچکے ہیں کہ اگر کروڑوں روپے کی لاگت سے تعمیر ہونے والا ٹراما سینٹر بحال ہوتا تو نقصان میں کمی لائی جاسکتی تھی ۔

یہ سانحہ ناقابل فراموش ہے ان گھرانوں کے لئے ہی نہیں جو اس سے براہ راست متاثر ہوئے بلکہ ان لوگوں کے لئے بھی جس پر اس واقعے نے نفسیاتی اور ذہنی حوالوں سے منفی اثرات مرتب کئے اوران لوگوں کے لئے بھی یہ ایک ناقابل فراموش واقعہ ہے جو 2013ء سے یہ کہتے رہے کہ پہلی بار حکومت میں ذمہ دار لوگ آئے ہیں ۔

حالانکہ بلوچستان کی پارلیمانی تاریخ میں غیر ذمہ داری کے اتنے مظاہر کبھی دیکھنے میں نہیں آئے جتنے گزرے چار سالوں میں ہوئے۔ 8اگست کا واقعہ ، پولیس ٹریننگ کالج کا واقعہ ، شاہ نورانی ، کوئٹہ مستونگ اور گوادر میں پیش آنے والے بدامنی اور دہشت گردی کے واقعات ایک طرف رکھیں یہ بھی تو بے انتظامی کی انتہا ہے کہ ایک ایسا صوبہ جس میں بم دھماکے سے اتنے لوگ نہ مرتے ہوں جتنے لوگ بروقت طبی امداد نہ ملنے پر مریں وہ صوبہ چار سالوں میں 154ارب روپے لیپس اور سرنڈر کردے اورپھر حکومت میں شریک جماعتیں یہ گلہ بھی کرتی رہیں کہ مرکز ہمیں ہمارا حق نہیں دے رہا ۔