|

وقتِ اشاعت :   August 9 – 2017

اکثر یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ معمولی بات پر سیکورٹی اہلکار پریشان ہوتے ہیں اور لوگوں اور گاڑیوں کی آمد و رفت پر پابندی لگا دیتے ہیں اور عوام الناس کو زیادہ پریشان کریتے ہیں۔ کل سریاب روڈ کو گھنٹوں بند کرنے کا کوئی جواز ہی نہیں تھا ،نہ جانے کیوں کسی اہلکاکر کو یہ خیال آیا کہ لاکھوں لوگوں کو پریشان کیاجائے ۔ 

ان کی کاروانِ زندگی اتنی پر سکون اندازسے کیوں جاری ہے۔ وزیر اعلیٰ کا شہر ہے وہ ایک سیاسی کارکن ہیں اس کی کسی سے کوئی دشمنی نہیں ہے لہذ ا ان کو نقصان پہنچانے کی کوئی ساز ش نہیں کرے گا ۔

لہذا صرف ان کے لئے یا اس احتجاج کے لئے جو چار دیواری کے اندر ہورہا ہے اور جو شہر کا محفوظ ترین علاقہ ہے اتنی زبردست طریقے سے عوام الناس خصوصاً اسکول کے بچوں ‘ خواتین اور دیگر لوگوں کو ہراساں کرنے کا کوئی اخلاقی جواز نہیں تھا ۔

اسکولوں کی چھٹی ایک بجے ہوتی ہے جبکہ بچے شام پانچ بجے گھر پہنچے ۔ چار گھنٹوں تک ننھے منے بچوں کو سڑک پر سے گزرنے نہیں دیا گیا ۔ چار گھنٹے تک یہ بچے بھوکے اور پیاسے رہے ، ان کا کوئی گناہ نہیں تھا نہ ہی وہ دہشت گرد تھے جو سردار رضا محمد بڑیچ پر حملہ کرتے اور ان کو ہلاک کرتے ۔ نہ ہی ان بچوں اور عام لوگوں کو یہ معلوم تھا کہ بلوچستان یونیورسٹی کیمپس کے اندر چند ایک لوگ جلسہ کررہے ہیں ۔ اس جلسے کی کوئی اہمیت نہیں تھی۔ 

یونیورسٹی انتظامیہ نے صرف اور صرف چاپلوسی میں اس قسم کا جلسہ منعقد کیا اور اہم شخصیات کو دعوت دی ۔ ویسے بھی یونیورسٹی انتظامیہ کے خلاف طلباء کی شکایات کچھ زیادہ آرہی ہیں کہ وہ تعلیم پر توجہ کم اور سازش اور چاپلوسی پر زیادہ زور دے رہے ہیں ۔

چاپلوسی سے یونیورسٹی انتظامیہ کا وقار بلند نہیں ہوگا۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ حکومت ایف سی کے اہلکاروں سے پولیس کی ڈیوٹی کم سے کم لے ۔ بعض اہم وجوہات کی بنا ء پر ایف سی کو انسانی آبادی سے دور سرحدی علاقوں پر تعینات کیاجاتا ہے ۔ 

پولیس کی ڈیوٹی پولیس والے کریں تو انتظام ٹھیک چلتا ہے ۔ ایف سی کو حکم ملا تو سات سالہ بچہ اسکول سے گھر نہیں آسکتا نہ ہی ہمارے ملک میں خواتین سیکورٹی رسک ہیں ان کو بھی بعض مقامات پر نہ صرف روکا گیا بلکہ ان سے تلخ کلامی بھی کی گئی۔ ہم پہلے بھی یہ مشورہ دے چکے ہیں کہ پولیس کو ہی ذمہ داری دی جائے ایف سی صرف ان کی مدد کو آئے ۔

ایف سی کو برائے راست اختیارات نہ دئیے جائیں کیونکہ ان کے پاس پولیس کی تربیت نہیں ہے اور نہ ہی وہ یہ قابلیت رکھتے ہیں کہ شہر میں امن وامان بحال کریں جو صرف اور صرف عوام اور شہریوں کے تعاون سے حاصل ہوتا ہے ۔

اگر یہی ذمہ داری کل پولیس کے ذمے ہوتی تو حکومت وقت کی سبکی نہیں ہوتی، حکومت کے خلاف عوام کا غصہ آسمان سے باتیں نہ کرتا۔ جتنی جلد ی ممکن ہوایف سی کو پولیس کے تابع کیاجائے اور پولیس کے احکامات کے تحت ایف سی کے جو ان کارروائی کریں ۔

آخری بات یہ ہے کہ حکومت اور حکومتی ادارے اتنے خوفزدہ ہیں تو اس قسم کی سرگرمیوں کا انتظام کیوں کرتے ہیں یہ عوام الناس کا کام ہے کہ وہ اپنے اجتماعات کریں اور وہ خود اپنے سیکورٹی کے ذمہ دار ہیں ۔ سیکورٹی ادارے جب کوئی اس قسم کا اجتماع کرتے ہیں تو وہ سیکورٹی کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں ۔ 

اجتماع اور اس کی معیار پر توجہ نہیں دیتے ۔ دوسری بات یہ ہے کہ وی آئی پی کی آمد و رفت کو شہری علاقوں خصوصاً تجارتی مراکز سے دور رکھا جائے بلکہ ہم یہ تجویز دے چکے ہیں کہ صدر ‘ وزیراعظم اور دوسرے اہم ترین شخصیات کی کوئٹہ شہر میں داخلہ پر پابندی ہونی چائیے ۔

وہ فوجی چھاؤنی میں اپنی تمام سرگرمیوں کو انجام دیں ، وہاں اجلاس اور میٹنگ منعقد کریں ، شہر کا رخ نہ کریں کیونکہ ان کی آمد سے کاروبار زندگی میں زبردست خلل پڑتا ہے اور لاکھوں شہریوں کو ان گنت مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ اس میں سب سے پہلے ٹریفک کا نظام درہم برہم ہوتا ہے ۔