|

وقتِ اشاعت :   August 16 – 2017

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک بار پھر ریاست ورجینیا میں ہونے والے پرتشدد مظاہروں کے لیے دونوں اطراف کو قصور وار ٹھہرایا ہے۔ اس بیان پر انھیں شدید تنقید کا سامنا ہے۔

شارلٹس ول شہر میں ہونے والے ان مظاہروں میں ایک خاتون ہلاک اور متعدد دوسرے زخمی ہو گئِے تھے۔

پیر کو ایک بیان میں انھوں نے سفید فام نسل پرستوں کی مذمت کی تھی، تاہم منگل کو نیویارک میں انھوں نے بائیں بازو کے دھڑوں کو بھی قصور وار ٹھہرایا اور کہا کہ انھوں نے ‘آلٹ رائٹ’ (دائیں بازو کے انتہاپسند) پر دھاوا بولا تھا۔

ان ہنگاموں میں ہیتھر ہائر نامی 32 سالہ خاتون اس وقت ہلاک ہو گئی تھیں جب ایک شخص نے ان پر کار چڑھا دی تھی۔

صدر ٹرمپ کو اس بیان کے لیے شدید تنقید کا سامنا ہے اور مبصرین کے مطابق اس سے انھیں دور رس نقصان ہو سکتا ہے۔ نمایاں رپبلکن رہنماؤں نے صدر ٹرمپ پر اس حوالے سے تنقید کی ہے۔

ایوانِ نمائندگان کے رپبلکن سپیکر پال رائن نے کہا کہ یہ بات واضح کرنا اہم ہے کہ سفید فام نسل پرستی نفرت انگیز ہے۔

رپبلکن سینیٹر جان میک کین نے ٹویٹ کے ذریعے کہا کہ ’نسل پرستوں اور ان امریکیوں کے درمیان کوئی اخلاقی مطابقت نہیں ہے جو نفرت اور تعصب کے خلاف کھڑے ہو رہے ہیں۔‘

ایریزونا کے سینیٹر جیف فلیکس نے کہا ہے کہ سفید فام نسل پرستی کے لیے بہانے قابلِ قبول نہیں ہیں۔

 صدر ٹرمپ واقعی یہ سمجھتے ہیں کہ سفید فام نسل پرستوں میں بھی اچھے لوگ موجود ہیں۔ اگر ان کی جانب سے نسل پرستوں کی مذمت میں تاخیر نے ایک سیاسی آگ بھڑکائی تھی تو منگل کو انھوں نے اس آگ پر تیل کی بالٹی پھینک دی ہے اور وہ شعلوں کے گرد ناچ رہے ہیں۔

صدر ٹرمپ نے اخباری کانفرنس میں ایک نامہ نگار کو مخاطب کر کے کہا: ‘بائیں بازو کے ان انتہاپسندوں کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے جو دائیں بازو والوں پر ڈنڈے لے کر چڑھ دوڑے تھے؟ کیا انھیں کوئی پچھتاوا ہے؟’

ٹریڈ یونین فیڈریشن کے صدر رچرڈ ٹرمکا نے صدر ٹرمپ کی امیریکن مینوفیکچرنگ کونسل کے عہدے سے یہ کہہ کر استعفیٰ دے دیا ہے کہ وہ ‘ایک صدر کے لیے جو تعصب اور تشدد برداشت کرتا ہو’ کام نہیں کر سکتے۔

امریکی سینیٹ میں ڈیموکریٹ پارٹی کے رہنما چک شومر نے ٹویٹ کی:

‘عظیم اور اچھے امریکی صدر متحد کرتے ہیں، تقسیم نہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے تبصرے سے واضح ہوتا ہے کہ وہ ان میں سے نہیں ہیں۔’