|

وقتِ اشاعت :   August 18 – 2017

گزشتہ روز ڈپٹی کمشنر کیپٹن (ر)فرخ عتیق نے میڈیاکے نمائندوں سے غیررسمی بات چیت کرتے ہوئے کہاکہ شہری مسائل کی تمام تر ذمہ داری ہماری نہیں بلکہ متعلقہ ادارے بھی اس کے پابند ہیں البتہ ہم عوام سے مکمل تعاون کرتے ہوئے انہیں مشاورت کے ساتھ ہر طرح کی سہولیات فراہم کرتے ہیں۔

انہوں نے کہاکہ جب میں نے ڈی سی کا چارج سنبھالا تو ان پانچ ماہ کے دوران بہت سی کمزوریاں موجود تھیں جنھیں اپنی ٹیم کے ساتھ ملکر دور کرنے کی بھرپور کوشش کی تاہم اب بھی مسائل موجود ہیں۔ 

ان کا کہنا تھا کہ غیر قانونی عمارتوں کی تعمیر اور شوروم مالکان کے پیچھے کون سے لوگ ہیں یہ سب میڈیا کے علم میں ہے۔ انہوں نے کہاکہ شہر میں زمینوں پر قبضہ مافیا کا راج تھا انتظامیہ نے بہت سی زمینوں کو ان کے قبضہ سے چھڑایا۔اسی طرح غیر قانونی طریقے سے تجاوزات بنانے والے 25 سال سے اس قدر مضبوط ہوچکے تھے کہ ان پر کسی نے ہاتھ نہیں ڈالا پہلی بار ہم نے ان کے خلاف کریک ڈاؤن کیا اور شہر سے تجاوزات کا خاتمہ کیا۔

ڈی سی نے میڈیا سے تمام مسائل پر تفصیلی بات چیت بھی کی اور سوالات کے جوابات بھی دیئے۔ لیکن شوروم مافیااور غیر قانونی عمارتوں کی تعمیر کے معاملے پر وہ سوالوں کے جواب گول کر گئے۔ یہ بات ہر ذی شعور جانتا ہے کہ کوئٹہ شہر میں اس وقت کونسے مافیا کا راج ہے اور اس کی پشت پناہی کون سے بااثرافراد کررہے ہیں جب بھی اس سے متعلق سوالات اٹھائے جاتے ہیں تو اس پر کوئی بھی تسلی بخش جواب دینے کیلئے تیار نہیں۔ 

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ضلعی انتظامیہ کا دائرہ کار کہاں تک ہے، انہیں کن کے خلاف کارروائی کرنے کی اجازت ہے، انہیں شہر کے انتظامات سنبھالنے کیلئے کس حد تک پابندبنایاگیاہے۔ یقیناًیہ سوالات ضرور اٹھائے جائینگے جب تک ضلعی انتظامیہ غیر قانونی عمارتوں اور شوروم مافیا کے خلاف کارروائی نہیں کرے گی۔ 

انتظامیہ کاکام صرف سستا بازارلگانا، غریب افراد کے ٹھیلوں کو ہٹانا، قیمتوں پر کنٹرول کے لیے وقتی برہمی و جرمانہ کرنانہیں بلکہ ضلعی انتظامیہ کی مکمل ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ شہر میں بلڈنگ کوڈ کی خلاف ورزی کرنے والے افراد کے خلاف کارروائی عمل میں لائے انہیں قانون کی گرفت میں لاکر اپنے فرائض سرانجام دے کیونکہ بلڈنگ کوڈ کی خلاف ورزی کوئٹہ کیلئے انتہائی خطرناک ہے۔

کوئٹہ زلزلہ زون میں واقع ہے یہاں تیس فٹ سے بلند عمارت بنانے کی اجازت نہیں خدانخواستہ اگر شہر میں زلزلہ آیا تو اس سے کتنی بڑی تباہی ہوگی کیونکہ جو عمارتیں تعمیر کی گئی ہیں ان کی تعداد تقریباََ 300 سے زائد ہے جو تنگ و تاریک گلیوں میں ہیں جہاں ریسکیو کی ٹیم بھی داخل نہیں ہوسکتی کل جب یہ مسائل سر اٹھائینگے تو اس کا جوابدہ کون ہوگا یقیناًوہ تمام متعلقہ ادارے ہی ہونگے جو اب چُپ کا روزہ رکھے ہوئے ہیں ۔

دوسری جانب شہر میں بڑے بڑے شوروم بنائے گئے ہیں اور تمام گاڑیاں سڑکوں پر کھڑی کی گئیں ہیں جس کے باعث ٹریفک میں خلل پڑتا ہے اور عام لوگوں کو پیدل چلنے میں بھی دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے مگر یہاں بھی ہمیں انتظامیہ کا کردار نہ ہونے کے برابر دکھائی دیتا ہے۔ 
شوروم مافیا بھی 20 سال سے زائد عرصہ سے غیر قانونی طریقے سے سڑکوں پر اپنی گاڑیاں کھڑی کرکے قبضہ کررکھاہے مگر اب تک ان پر ہاتھ نہیں ڈالاگیا ۔ اورجب اس سے متعلق اداروں سے سوالات کئے جاتے ہیں توان کی جانب سے یہی جواب آتا ہے کہ ہم جب کارروائی کرتے ہیں تو بااثر افراد مداخلت کرکے ہمیں روک لیتے ہیں۔ 

اب یہ فیصلہ موجودہ صوبائی حکومت اور ضلعی انتظامیہ کو کرنا ہے کہ کب تک ان مافیاز کے رحم وکرم پر شہریوں کو چھوڑا جائے گا کب قانون حرکت میں آئے گی اور ان کے خلاف جنگی بنیادوں پر کارروائی کرے گی۔ قانون سب کیلئے ایک ہونی چاہئے دوہرا معیار نہیں ہونا چاہئے۔ 

جس کیلئے ضروری ہے کہ ضلعی انتظامیہ اپنے مکمل اختیارات کا بھرپور استعمال کرتے ہوئے شہر کی خوبصورتی اور ترقیاتی کاموں کیلئے اپنا کردار احسن طریقے سے نبھائے اور شہریوں کے مسائل کو حل کرنے کیلئے ایک بار پھر اپنی پالیسی پر نظر ثانی کرے تاکہ ان کے اختیارات اور بے بسی پر سوالات نہ اٹھائے جاسکیں۔