|

وقتِ اشاعت :   August 18 – 2017

اسلام آباد: پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی کا کہنا ہے کہ کشمیر کا مسئلہ حل کرنے کےلیے پاکستان کو پہل کرتے ہوئے کشمیر کو آزاد کرنے کی تجویز رکھنی چاہیے۔

برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کو دیئے گئے ایک خصوصی انٹرویو کے دوران اپنے اس خیال کی تائید میں محمود اچکزئی کا کہنا تھا کہ دو حصوں میں منقسم کشمیر کو آزاد کرنے کی بات سے پاکستان دنیا کو بتاسکے گا کہ وہ یہ مسئلہ حل کرنا چاہتا ہے۔

جب ان سے یہ پوچھا گیا کہ کیا بھارت مقبوضہ کشمیر سے دست بردار ہونے پر تیار ہوجائے گا، تو محمود اچکزئی نے کمال بے نیازی سے کہا کہ بھارت اس کےلیے تیار نہ بھی ہو ’’لیکن ہم تو بچ جائیں گے۔‘‘

انہوں نے کہا کہ ہم کشمیر کے معاملے پر ایک نئی راہ کیوں نہیں اپناتے؟ پاکستان اور بھارت، دونوں ہی کشمیر کو آزاد کردیں کیونکہ یہ جھگڑے کی جڑ ہے۔

محمود اچکزئی کا مؤقف تھا کہ ہم استصواب رائے پر مُصر ہیں، ایک دوسرے پر الزام لگا رہے ہیں، غریب لوگ مر رہے ہیں۔

ہمیں اپنے پڑوسیوں سے حالات ٹھیک کرنا ہوں گے۔ انہوں نے سی پیک کی تکمیل کو علاقائی امن سے مشروط کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کو افغانستان، ایران اور بھارت کے ساتھ لازمی طور پر امن قائم کرنا ہوگا۔

پاکستانی قوم کے تصور کی نفی کرتے ہوئے محمود اچکزئی کا کہنا تھا کہ پاکستان میں سب لوگ نسلاً الگ الگ ہیں، مختلف زبانیں اور مختلف کلچر ہیں اور یہ ’’کثیر قومی‘‘ اور کثیر ثقافتی ملک ہے جس میں بلوچ، پشتون، سندھی، سرائیکی، پنجابی، سب اپنے اپنے تاریخی مادر وطن میں رہ رہے ہیں۔

اگرچہ اپنے اس انٹرویو میں انہوں نے دبے لفظوں میں یہ اقرار کیا کہ افغانستان کی جانب سے بھی پاکستان میں مداخلت ہورہی ہے لیکن ساتھ ہی ساتھ افغانستان کے حالیہ مسائل کی زیادہ ذمہ داری پاکستان پر ڈالتے ہوئے کہا کہ اگر پاکستان خلوصِ نیت کام کرے تو افغانستان کے 60 فیصد مسائل حل ہوسکتے ہیں۔

دوسری جانب  قومی اسمبلی کے اجلاس میں انتخابی اصلاحات بل پر بحث کے دوران اظہار خیال کرتے ہوئے محمود خان اچکزئی نے کہا کہ 1970 کے بعد ملک میں کبھی شفاف انتخابات نہیں ہوئے۔

یہاں بچوں کو پہلے کرپٹ کیا جاتا ہے پھر فائل بنا کر بلیک میل کیا جاتا ہے، کیا آئی جے آئی بناتے وقت کسی نے آرٹیکل 62۔63 کا خیال کیا؟ کیا پیپلزپارٹی کا راستہ روکنے والے صادق اور امین تھے۔

جو لوگ سیاست دانوں کو پیسے دینے کا اعتراف کرتے ہیں ان سے اس بارے پوچھا جانا چاہیے۔ تمام ادارے اپنے آئینی دائرے میں رہ کر کام کریں۔  ہمیں اپنی داخلی اور خارجی سمیت تمام پالیسیاں پارلیمنٹ میں بنانی چاہئیں، ہمیں سب کچھ داؤ پر لگا کر ایوان کی بالا دستی قائم کرنا ہو گی۔