|

وقتِ اشاعت :   August 22 – 2017

اسلا م آباد : پاناما لیکس سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں قومی احتساب بیورو (نیب) نے سابق وزیراعظم نواز شریف اور ان کے بچوں کے خلاف تحقیقات کا آغاز کردیا ہے۔اس ضمن میں نیشنل بینک کے صدر سعید احمد نیب کی تفتیشی ٹیم کے سامنے پیر کو پیش ہوئے۔

نیب کے اہلکار کے مطابق نیشنل بینک کے صدر لاہور میں واقع نیب کے دفتر میں پیش ہوئے۔نامہ نگار شہزاد ملک کے مطابق تفتیشی ٹیم نے سعید احمد نے سابق وزیر اعظم اور ان کے بچوں کی بیرون ممالک جائیدادوں کے بارے میں پوچھ گچھ کی۔ایک نجی ٹی وی کے مطابق نیب نے نواز شریف اور ان کے بچوں کے نام ای سی ایل میں ڈالنے کی درخواست کر دی ہے۔ 

تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ کے احکامات پر نواز شریف اور ان کے اہل خانہ کیخلاف عزیزیہ اسٹیل مل کیس کی تحقیقات کرنے والی نیب کی ٹیم نے نواز شریف اور ان کے صاحبزادوں حسن نواز، حسین نواز اور مریم نواز کے نام ای سی ایل میں ڈالنے کی درخواست کر دی ہے۔نیب کی ٹیم کی جانب سے ڈی جی نیب قمر زمان چوہدری سے درخواست کی گئی ہے کہ وہ وزارت داخلہ کو اس حوالے سے باقاعدہ درخواست بھجوائیں۔

نواز شریف اور ان کے بچوں کے نام نیب کی جانب سے پیشی کیلئے بلائے جانے کے باوجود حاضر نہ ہونے پر ای سی ایل میں ڈلوانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ نیب کی جانب سے نواز شریف اور ان کے بچوں کو تفتیش کیلئے 2 مرتبہ طلب کیا گیا، تاہم ان کی جانب سے پیش ہونے سے انکار کر دیا گیا۔

جبکہ نواز شریف اور ان کے بچوں کی جانب سے بیرون ملک روانہ ہونے کی بھی تیاری کی جا رہی ہے۔ اسی صورتحال کے باعث نیب نے نواز شریف اور ان کے بچوں کے نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں ڈلوانے کا فیصلہ کیا ہے۔

نیب حکام کے مطابق نواز شریف اور ان کے بچوں کو اس معاملے میں طلبی کے نوٹس جاری کیے گئے تھے لیکن وہ تفتیشی ٹیم کے سامنے پیش نہیں ہوئے۔حکمراں جماعت کا دعویٰ ہے جب تک نواز شریف کی جانب سے سپریم کورٹ کے28 جولائی کے فیصلے کے خلاف نظر ثانی کی درخواست پر فیصلہ نہیں ہو جاتا اس وقت تک نواز شریف اور ان کے خاندان کا کوئی بھی فرد نیب کے سامنے پیش نہیں ہوگا۔نیب حکام نے سابق وزیر اعظم اور ان کے بچوں کے خلاف ریفرنس کی تیاری کے لیے پاناما لیکس کی تحقیقات کرنے والی ٹیم کے چھ ارکان کے بیان ریکارڈ کرنے کے بارے میں بھی رابطہ کیا ہے تاہم ابھی تک ان افراد کی جانب سے کوئی درعمل نہیں دیا گیا۔

سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے 28 جولائی کو اپنے متفقہ فیصلے میں قومی احتساب بیورو کو چھ ہفتوں میں سابق وزیر اعظم اور ان کے بچوں کے خلاف چار ریفرنس دائر کرنے کا حکم دیا تھا۔نیب حکام نے نیشنل بینک کے صدر کے علاوہ ان کے قریبی ساتھی جاوید کیانی کو بھی طلب کیا تھا لیکن اطلاعات کے مطابق وہ بھی تفتیشی ٹیم کے سامنے پیش نہیں ہوئے۔

دوسری جانب نیب حکام نے وزیر خزانہ اسحاق ڈار کو بھی 22 اگست کو تفتیشی ٹیم کے سامنے پیش ہونے کے بارے میں طلبی کا نوٹس جاری کر رکھا ہے۔وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے سپریم کورٹ کے 28 جولائی کے فیصلے پر نظرثانی کی درخواست دائر کی ہے۔

اسحاق ڈار کے وکیل طارق حسن کی وساطت سے دائر کی گئی نظرثانی کی درخواست میں کہا گیا ہے کہ پاناما کیس میں سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ کی جانب سے 28 جولائی کے فیصلے میں سقم موجود ہیں۔اس درخواست میں مزید کہا گیا ہے کہ پاناما لیکس کے معاملے پر عدالت نے مکمل ریکارڈ کی چھان بین ہی نہیں کی لہذا اس معاملے کو بھی دیکھنے کی ضرورت ہے۔

نظر ثانی کی اس درخواست میں سپریم کورٹ سے استدعا کی گئی ہے کہ 28 جولائی کا فیصلہ کالعدم قرار دے کر ان کے خلاف دائر کی گئی درخواستیں خارج کی جائیں۔نظر ثانی کی اس درخواست میں کہا گیا ہے کہ پاناما کیس کے سلسلے میں 20 اپریل کے عدالتی فیصلے میں بھی اسحاق ڈار کے خلاف تحقیقات کا کوئی حکم نہیں تھا۔نظر ثانی درخواست کے مطابق ‘جے آئی ٹی رپورٹ کے خلاف وفاقی وزیر خزانہ کے اعتراضات کو زیرِ غور نہیں لایا گیا۔

درخواست میں اس بات کا بھی ذکر کیا گیا ہے کہ سنہ 1983 سے 2016 تک کا مکمل انکم اور ویلتھ ٹیکس کا ریکارڈ سپریم کورٹ میں فراہم کیا گیا تھا جس میں ٹیکس انتظامیہ کی طرف سے ٹیکس ریٹرنز کو تسلیم کیا ہے۔

نظرثانی درخواست میں ریفرنس دائر کرنے کے معاملے پر یہ موقف اپنایا گیا ہے کہ ’مشکوک تحقیقاتی رپورٹ‘ پر ریفرنس کیسے دائر ہوسکتا ہے جبکہ ریکارڈ سے ثابت ہے کہ وزیر خزانہ کے اثاثے آمدن سے زائد نہیں ہیں۔ درخواست گزار کا کہنا ہے کہ اگر حقائق کے برخلاف ریفرنس دائر ہوا تو یہ بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہوگی۔

اسحاق ڈار نے 28 جولائی کے فیصلے کے خلاف نظرثانی کی درخواست میں موقف اختیار کیا ہے کہ جے آئی ٹی رپورٹ کے بعد پاناما کیس کی سماعت 3 ججز نے کی جبکہ فیصلہ 5 ججز نے سنایا اور جن 2 جج صاحبان نے کیس سنا ہی نہیں وہ فیصلے میں کیسے شامل ہو گئے درخواست میں یہ بھی کہا گیا کہ ‘ریفرنسز کی نگرانی کے لیے سپریم کورٹ کے نگران جج کا تقرر سے عدالت بظاہر شکایت کنندہ بن گئی ہے اور ، نگران جج کی تعیناتی ٹرائل پر اثر انداز ہو گی۔

جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے 28 جولائی کو اپنے فیصلے میں سابق وزیر اعظم نواز شریف کو نااہل کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے اور ان کے بچوں کے خلاف ریفرنس دائر کرنے کے ساتھ ساتھ وفاقی وزیر اسحاق ڈار کے خلاف بھی معلوم ذرائع آمدن سے زیادہ اثاثے بنانے پر قومی احتساب بیورو کو اْن کے خلاف ریفرنس دائر کرنے کا حکم تھا۔دریں اثناء حدیبیہ پیپرز مل سکینڈل سے متعلق نیب حکام نے سپریم کورٹ کے حکم پرنااہل قرار دیئے گے ۔

سابق وزیر اعظم نواز شریف ان کے خاندان اور قریبی رازدار وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے خلاف ازسرنو تحقیقات کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے باوثوق ذرائع کے مطابق قومی احتساب بیورو(نیب) نے حدیبیہ پیپر ملز کی دوبارہ تحقیقات کے لیے عدالت سے رجوع کرنے کے حوالے سے ڈاریکٹر جنرل ظاہر شاہ کی سربراہی میں تین رکنی خصوصی کمیٹی تشکیل دی گئی ہے جو چوبیس اگست کو جائزہ رپورٹ نگران جج اعجاز آلا احسن کو پیش کرئے گی جس میں نیب افسران پر مشتمل کمیٹی نگران جج سے حدیبیہ مل کی دوبارہ تحقیقات کے لئے بھی خصوصی استدعا کرئے گی ۔

اس حوالے سے خصوصی کمیٹی نے نیب کی پراسیکیوشن برانچ سے قانونی پہلووں پر قانونی مشاورت بھی مکمل کرلی ہے کمیٹی کی تشکیل کا فیصلہ 21جولائی کو نیب ایگزیکٹو بورڈ کے اجلاس میں کیا گیا تھابعدازں آن لائن کے رابطے پر اس حوالے سے ترجمان نیب کی جانب سے بات کرنے سے گریز کیا گیا۔