|

وقتِ اشاعت :   August 22 – 2017

کوئٹہ: نیب بلوچستان نے میگا کرپشن کیس میں دورانِ تفتیش ملزمان سے اربوں روپے کی بر آمد ہونے والی جائیدادوں کی ملکیتی حقوق کا بلوچستان حکومت کے نام منتقلی کے لئے سندھ حکومت سے رابطہ کر لیا ، جائیدادوں کی ملکیتی حقوق کے ٹرانسفر کا عمل ہنگامی بنیادوں پر شروع کر دیا گیا ۔

ریونیو آفس کراچی، ڈی ایچ اے کراچی و دیگر متعلقہ دفاتر ملزمان کی کرپشن سے بنائی گئی جائیدادیں بلوچستان حکومت کے نام فوری ٹرانسفر کے لئے سرگرم عمل ہو گئے ۔نیب ترجمان کے مطابق بلوچستان میگا کرپشن کرپشن اسکینڈ ل میں دوران تفتیش سابق سیکرٹری خزانہ مشتاق رئیسانی و دیگر ملزمان کے نام ڈی ایچ اے کراچی میں اربوں روپے کے بنگلوں او پلاٹس کا انکشاف ہوا تھا ، اور بعد ازاں نیب نے قانونی کاروائی کرتے ہوئے متعلقہ جائیدادیں اپنے قبضہ میں لے لی تھیں۔

ترجمان کے مطابق نیب بلوچستان نے چیئرمین قمر زمان چوہدری کی ہدایت پر متعلقہ جائیدادیں بلوچستان حکومت کے نام منتقل کرنے کے لئے ایک ٹیم تشکیل دی ۔ تفتیشی آفسر نیب بلوچستان شیخ محمد شعیب نے بہمراہ حکومت بلوچستان کے نمائندگان حکومت سندھ سے اس سلسلے میں رابطہ کیا اور ریونیو آفس کراچی ، ڈی ایچ اے کراچی اور دیگر متعلقہ دفاتر کے آفسران سے ملاقات کر کے جائیدادوں کے ملکیتی حقوق کے ٹرانسفر کا کام شروع کروا دیا ہے۔

اس سلسلے میں ریونیو آفس کراچی، ڈی ایچ اے کراچی اور دیگر متعلقہ دفاتر کو تمام امور جلد از جلد مکمل کرنے کی خصوصی ہدایت جاری کی گئی ہیں۔ بلوچستان میگا کرپشن کیس میں گرفتار سابق سیکریٹری خزانہ مشتاق احمد رئیسانی کی درخواست ضمانت مسترد کردی گئی۔ مشتاق رئیسانی نے بلوچستان ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی تھی کہ ان کی طبیعت خراب ہے اور کوئٹہ میں ان کا مناسب علاج ممکن نہیں اس لئے ضمانت پر رہا کیا جائے تاکہ وہ باہر جاکر اپنا علاج کراسکے۔ 

مشتاق رئیسانی نے اپنی درخواست میں یہ بھی کہا تھا کہ ان کے گھر سے گرفتاری کے وقت ملنے والی کروڑوں روپے کی رقم خیرات اور فلاحی سرگرمیوں کیلئے مخیر افراد نے جمع کرائی تھی۔ بلوچستان ہائی کورٹ کے جسٹس جمال خان مندوخیل اور جسٹس نذیر احمد لانگو پر مشتمل دو رکنی بنچ نے نے دلائل سننے کے بعد فیصلہ محفوظ کرلیا تھا۔ پیر کو عدالت نے فیصلہ سناتے ہوئے درخواست ضمانت مسترد کردی۔یاد رہے کہ مشتاق رئیسانی کو گزشتہ سال مئی میں گرفتار کیاگیا تھا۔ ان پر محکمہ بلدیات کے دو ارب روپے سے زائد ترقیاتی فنڈز میں بد عنوانی کا الزام ہے۔