|

وقتِ اشاعت :   August 22 – 2017

گزشتہ سے پیوستہ دن وزیراعظم شاہدخاقان عباسی کوئٹہ کے ایک روزہ دورے پرتشریف لائے۔ وزیراعظم نے صوبے میں امن وامان کے قیام ،صوبے کے مسائل کے حل اورعوام کی فلاح وبہبود کیلئے جاری ترقیاتی سرگرمیوں پر وزیراعلیٰ بلوچستان نواب ثنا ء اللہ خان زہری اورصوبائی حکومت کی کاوشوں کوسراہتے ہوئے اس حوالے سے وفاقی حکومت کے مکمل تعاون کااعادہ کیا۔ 

وزیراعظم کی زیرصدارت بلوچستان میں امن وامان کی صورتحال اورترقیاتی عمل کا جائزہ لینے کیلئے منعقدہ اعلیٰ سطحی اجلاسوں کے دوران وزیراعظم کو امن وامان اورترقیاتی منصوبوں کی پیشرفت کے بار ے میں چیف سیکرٹری بلوچستان اورنگزیب حق کی جانب سے بریفنگ دی گئی ۔

اس موقع پر اظہارخیال کرتے ہوئے وزیراعلیٰ نواب ثناء اللہ خان زہری نے کہا کہ امن واستحکام اورجاری ترقیاتی عمل کی بدولت بلوچستان میں بتدریج تبدیلی آرہی ہے اورآئندہ چند سالوں میں ایک نیابلوچستان نظرآئے گا۔انہوں نے کہاکہ بلوچستان ایک لاوارث صوبہ تھاکسی نے نہ تو اس کو اپنایااورنہ ہی اپناسمجھا،ماضی میں حکمران آتے اورسبزکرسی پر بیٹھ کر چلے جاتے رہے ۔

ہم نے گزشتہ چالیس سال کے حل طلب مسائل پر توجہ دی،صوبے میں رونماہونے والی مثبت تبدیلی کا کریڈٹ موجودہ صوبائی حکومت کو جاتاہے۔انہوں نے کہاکہ جاری مالی سال کے ترقیاتی پروگرام میں ایسے منصوبے مکمل کئے جائیں گے جن کا براہ راست فائدہ عام آدمی کو پہنچے گا بالخصوص صحت ،تعلیم ،آبنوشی کے شعبوں کی ترقی اورروزگار کے مواقعوں کی فراہمی ہماری ترجیحات میں شامل ہے۔

وزیراعلیٰ نے کہاکہ صوبے میں پسماندگی کا یہ عالم تھا کہ دیہی اورشہری علاقوں میں فرق نہیں رہ گیاتھا کیونکہ شہری علاقوں میں بھی بنیادی سہولتیں نا پید تھیں ۔انہوں نے کہاکہ وزیراعلیٰ ڈویژنل اورضلعی ترقیاتی پروگرام کے تحت ڈویژنل اورضلعی ہیڈکوارٹروں کی تعمیروترقی کیلئے خطیرفنڈز فراہم کئے گئے ہیں جن کے ذریعے ترقیاتی منصوبے تیزی سے جاری ہیں اورجلد ہی خوشگوار تبدیلی نظرآناشروع ہوجائے گی۔

وزیراعلیٰ نے بلوچستان کے تمام اضلاع میں گیس کی فراہمی کیلئے وزیراعظم کی جانب سے ایل این جی پلانٹ کی تنصیب ،بے نظیرانکم سپورٹ پروگرام اورہیلتھ انشورنس کارڈپروگرام کا دائرہ کار صوبے کے تمام اضلاع تک وسیع کرنے کے اعلان پر وزیراعظم کا شکریہ اداکیا۔وزیراعظم نے اپنے دورہ کے موقع پر گورنر ہاؤس میں میڈیا نمائندوں سے بات چیت بھی کی جس میں سیاسی، معاشی اوردیگر معاملات پر سوالوں کے جوابات دیئے۔ 

وزیراعظم کا کہنا تھا کہ سی پیک منصوبہ سے بلوچستان میں بڑی معاشی تبدیلی آئے گی۔ اگر ہم صرف اسی حوالے سے معاملات کا ذراسا جائزہ لیں تو یہاں چند بنیادی سوالات اٹھتے ہیں جو جواب طلب ہیں۔ سی پیک منصوبہ کا منبع گوادر ہے مگر اب تک گوادر میں پانی کا مسئلہ حل نہیں کیا گیاہے گوادر کو پانی فراہم کرنے کے حوالے سے مستقل بنیادوں پر تاحال کوئی اقدام نہیں اٹھایاگیا جس سے وہاں کے عوام کو صاف پانی میسر آئے۔ 

بلوچستان میں بیروزگاری کی شرح دیگر صوبوں کی نسبت زیادہ ہے جبکہ آبادی کے لحاظ سے یہ سب سے چھوٹا صوبہ ہے ۔اسی تناسب سے تو یہاں کوئی بیروزگارنہیں ہونا چائیے تھا یا پھر بیروزگاری کی شرح سب سے کم ہونی چائیے تھی مگر بلوچستان کے حوالے سے ترقی کا پہیہ الٹا گھومتا ہے۔ اندرون بلوچستان آج بھی بنیادی سہولیات ناپید ہیں خاص کر تعلیم اور صحت وہاں ڈھونڈے سے نہیں ملتے۔ 

گزشتہ و رواں مالی سال کے بجٹ میں ان دو شعبوں کو سب سے زیادہ ترجیح دی گئی ہے مگر ا ب تک اس کے نتائج کیا برآمد ہوئے؟ تعلیم کی حالت یہ ہے کہ خود حکومت میں موجود وزراء اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ اسکولوں میں بچوں کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے ۔

اسی طرح صحت کی صورتحال بھی ابتر ہے آج بھی دوردراز علاقوں کے لوگ اپنا علاج کوئٹہ میں کراتے ہیں بعض دیگر شہروں کارخ کرتے ہیں ۔ توپھر سوال اُٹھتا ہے کہ بجٹ میں ان دو شعبوں کے لیے مختص رقم کہاں خرچ کی جارہی ہے ۔

یہ حکومت ہی کی ذمہ داری ہے کہ وہ بجٹ میں جس طرح رقم مختص کرتی ہے اسی طرح ان اداروں کی فعالیت پر بھی توجہ دے۔ وزیراعظم کی آمد اور بلوچستان کو سب سے زیادہ ترجیح دینے کے بیانات خوش آئند ہیں مگر زمینی حقائق بھی اسی طرح ہونے چاہئیں جس طرح کے اعلانات کئے جاتے ہیں کیونکہ اپنے بیانات وتقاریر میں سبھی صدور ووزرائے اعظم کے علاوہ دیگر مقتدر قوتوں نے بھی بلوچستان کواولین نمبروں پر رکھا مگربلوچستان ہرلحاظ سے آج بھی سب سے پیچھے کیوں ہے،یہ سوال تمام بیانات داغنے والوں سے اپنا جواب مانگتا ہے۔