|

وقتِ اشاعت :   August 23 – 2017

کوئٹہ: ٹریفک حادثہ کیس میں گرفتارایم پی اے عبدالمجید اچکزئی گرفتاری کے بعد پہلی بار بلوچستان اسمبلی میں شریک ہوئے۔ اجلاس میں پولیس اور اور سیکیورٹی اہلکاروں کے رویے کے خلاف تحریک استحقاق پیش کرتے مجید اچکزئی پھٹ پڑے اور کہا کہ فورسز نے گرفتاری کے وقت ایسا سلوک کیا جیسے وہ خطرناک مجرم ہوں۔

گرفتاری کے بعد اغواء سے لیکر قتل تک نہ جانے کیا کیا کیسز تھونپے گئے۔ اسپیکر راحیلہ درانی نے مجید اچکزئی کی تحریک استحقاق کو کمیٹی کے سپرد کردیا۔

بلوچستان اسمبلی کا اجلاس منگل کو مقررہ وقت سے تقریباً پونے دو گھنٹے بعد اسپیکر راحیلہ درانی کی زیر صدارت شروع ہوا۔ اجلاس میں پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے رکن وچیئرمین پبلک اکاؤنٹس کمیٹی عبدالمجیدخان اچکزئی نے بلوچستان اسمبلی کے اجلاس میں تحریک استحقاق پیش کرتے ہوئے کہا کہ 21جون کو وقوع پذیر ہونے حادثے کے بعد وقوعہ پزیر ہونے والے حالات و واقعات کو زیر بحث لانے کی ضرورت ہے۔

مذکورہ واقعے کا ایف آئی آر نامعلوم افراد کے خلاف کاٹی گئی مگر سیکورٹی فورسز اور پولیس اہلکار آدھی رات کو مجسٹریٹ اور کسی قسم کے وارنٹ کے بغیر چادر وچاردیواری کے تقدس کو پامال کرتے ہوئے میرے گھر میں داخل ہوئے قانون کے پابند شہری کی حیثیت سے اس امر سے میرا استحقاق مجروح ہوا ہے ۔

انہوں نے تحریک استحقاق کی موزونیت پر بات کرتے ہوئے کہا کہ جس روز یہ واقعہ ہوا اسمبلی کا اجلاس ہورہا تھا اسمبلی اجلاس کے بعد یہ واقعہ ہوا اور ہمارا ایک فرض شناس کانسٹیبل میری گاڑی سے زخمی ہوگیا

انہوں نے کہا کہ میں گاڑی چلا رہا تھا یا نہیں یہ چھوڑیں اصل بات یہ ہے کہ چونکہ میری گاڑی تھی اس لئے میں نے اسے اون کیا اور آج بھی اون کرتا ہوں کہ گاڑی میری تھی کانسٹیبل زخمی ہوگیا جسے فوری طور پر ہم ٹراما سینٹر لے کر گئے خود میں بھی وہاں گیا ڈیڑھ گھنٹے تک تو ٹراما سینٹر میں کوئی ڈاکٹر ہی نہیں تھا سی سی پی او اور دیگر پولیس افسران بھی وہاں آگئے تھے بعد میں کانسٹیبل کی شہادت ہوگئی ۔

ہم نے اس کی نماز جنازہ پڑھائی اس کے والد بھائی بیٹا سب وہاں موجود تھے میں نے انہیں کہا کہ ہماری روایات ہیں ہم اس کے مطابق چلیں گے میں ذمہ داری قبول کررہا ہوں اور اس گھر کے خود کفیل ہونے تک میں اس کی ذمہ داری لیتا ہوں ۔

اس کے بعد ہم نے اس کی میت چھ سات آٹھ گاڑیوں کے ساتھ ڈیرہ غازی خان بھجوادی ۔ مجیدخان اچکزئی نے کہا کہ میں اس حادثے کے بعد مسلسل سی سی پی او کے ساتھ رابطے میں رہا میں نے انہیں کہا کہ ایف آئی آر آپ نے نامعلوم افراد کے خلاف کاٹی ہے اب مجھے کیا کرنا چاہئے ایک روز کے وقفے کے بعد پھر اسمبلی کا اجلاس تھا ۔

اجلاس کے بعد بھی میں نے سی سی پی او سے اس بارے میں بات کی جس روز میرے گھر پر چھاپہ مارا گیا پولیس افسران کے ساتھ میں رابطے میں رہا وہ میرے گھر بھی آئے تھے مگر اچانک آدھی رات کو ساڑھے تین بجے میرے گھر میں سیکورٹی اہلکار کسی قسم کی اطلاع دیئے بغیر گھس آئے اہلکاروں نے منہ اور چہرے ڈھانپ رکھے تھے ان کے ہمراہ کوئی مجسٹریٹ تھااور نہ ہی میری گرفتاری کے وارنٹ تھے بغیر نمبر پلیٹس کی گاڑیوں میں اہلکار آئے اور میرے ساتھ دہشت گرد اور عادی مجرم جیسا برتاؤ کیا گیا اگران کا میرے ساتھ برتاؤ ایسا تھا تو ایک عام آدمی کے ساتھ ان کا رویہ کیسا ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ یہ لوگ میرے گھر پر کسی اور ہی ارادے سے آئے تھے اگر وہاں میرے سیکورٹی گارڈ ز کچھ کردیتے تو یہ لوگ ہم سب کو ماردیتے اس طرح کا خوف و ہراس پھیلایا گیا جیسے مجھے نہیں ایمن ظواہری کو گرفتا رکررہے ہوں انہوں نے کہا کہ ہمیں ایک بات کی سزا دی جارہی ہے کہ ہم جمہوریت اور پارلیمنٹ کی بالادستی کی بات کرتے ہیں جو ایف آئی آر کاٹی گئی ۔

اس میں سرخ قلم سے ٹمپرنگ کی گئی دہشت گردی کی دفعہ ڈالی گئی حالانکہ سپریم کورٹ نے حکم دیا ہے کہ انسداد دہشت گردی کی دفعہ لگانے والا پہلے خود سوچے گا کہ اس میں انسداد دہشت گردی کی دفعہ لگ سکتی ہے یا نہیں یہ صوبے کی تاریخ کا پہلا ٹریفک کیس ہے جس میں دہشت گردی کی دفعہ ڈالی گئی ہے یہ بھی صوبے کی تاریخ میں پہلی بار ہوا ہے کہ ٹریفک حادثے کا کیس عدالت میں جا کر ٹائی ہوگیا ۔

انہوں نے کہا کہ مجھے بدنیتی کی بنیاد پر گرفتار کیا گیا اور اس معاملے کو اتنا بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا اگر صرف ٹریفک حادثہ ہی وجہ ہے تو جس تھانے میں مجھے رکھا گیا اس تھانے کے ڈی ایس پی کے بیٹے نے اس کے تین دن بعد گاڑی سے دو لوگوں کو ٹکر ماری اس حادثے میں ایک خاتون جاں بحق بھی ہوگئی اس کا تو کوئی نام نہیں لیتااسی طرح ایئر پورٹ روڈ پر فورسز کی گاڑی کی ٹکر سے دو بچے جاں بحق ہوگئے ۔

اس طرح کے نہ جانے کتنے واقعات اب تک رونما ہوچکے ہیں اور آئے روز حادثات پیش آتے ہیں ان کا کیوں کوئی نام نہیں لیتا ۔یہ انصاف کا کیسا معیار ہے ۔ بعدازاں سپیکر نے تحریک استحقاق کو باضابطہ قرار دیتے ہوئے اسے ایوان کی استحقاق کمیٹی کے سپرد کرنے کی رولنگ دی ۔

جمعیت علمائے اسلام کے سردار عبدالرحمان کھیتران کا کہنا تھا کہ عبدالمجیدخان کے ساتھ جو ہوا وہ کھیل میرے ساتھ بھی چار سال پہلے کھیلا گیا۔ میرے خلاف کیس میں بھی دہشت گردی کی دفعہ ڈالی گئی ۔

میں مجید اچکزئی کے ساتھ ہوں۔ گرفتاری دینے کے باوجود میرے گھر میں داخل ہوکر چادر و چار دیواری کے تقدس کو پامال کیا گیا۔ میر ے ساتھ جان بوجھ کر ایسا رویہ رکھا گیا کہ میرے محافظ مشتعل ہوجائے اور وہ کوئی ایسی غلط حرکت کرے کہ جس کے جواب میں فورسز مجھے اور میرے اہلخانہ کے خلاف کوئی سنگین اقدام اٹھائے۔ 

پارلیمنٹرین کے ساتھ کیوں ایسا رویہ رکھا جاتا ہے۔ ہم پاکستان کے حامی ہیں۔ اس وطن سے محبت کرتے ہیں ، اس وطن کے پرچم کو چومتے ہیں ۔ اس ملک کے آئین اور جمہوریت کو مانتے ہیں ۔

کیا اس لئے ہمارے ساتھ ایسا رویہ رکھا جاتا ہے۔ ملک سے محبت اور عوام کی خدمت کے جرم کی سزا دی جارہی ہے ۔قومی پرچم کو جلانے ،بے حرمتی کرنے والوں اور غداری کے مرتکب افراد کو معاف کرکے گلے سے لگایا جاتا ہے اور قومی دھارے میں شامل کیا جاتا ہے اور وطن سے محبت کرنے والوں کے ساتھ یہ رویہ رکھا جاتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ میں نے بھی مجید اچکزئی کی طرح ایوان میں معاملہ اٹھایا لیکن کسی نے میری بات نہیں سنی۔ انہوں نے سپیکر سے استدعا کی کہ اگر مجیدخان کی تحریک کمیٹی کے سپرد کی جاتی ہے تو اس میں مجھے بھی سنا جائے۔

انہوں نے کہا کہ پورے ایوان کا استحقاق مجروح ہوا ہے اس حوالے سے قانون سازی کی جائے ۔جس پر سپیکر نے کہا کہ قانون سازی کاکام اراکین کا ہے وہ چاہیں تو اس قانون سازی کرسکتے ہیں ۔ 

اسپیکر نے کہا کہ آپ کا معاملہ اس سے الگ ہے ، آپ اپنی تحریک استحقاق ایوان میں لائے جس کو کمیٹی کے سپرد کردیا جائیگا۔اجلاس میں صوبائی وزیر تعلیم عبدالرحیم زیارتوال نے پوائنٹ آف آرڈر پر بات کرتے ہوئے کہا کہ اس ملک میں شروع دن سے ہی جمہوری اور غیر جمہوری قوتوں کے درمیان جو چپقلش شروع ہوئی وہ اب بھی جاری ہے میں اس فلور پر باربار کہہ چکا ہوں کہ تمام اداروں کو اپنی حدود میں رہ کر اپنا کام کرنا ہوگا ماضی میں غیر جمہوری قوتوں نے جو اقدامات کئے ۔

سپریم کورٹ نے ان تمام کو غلط اور جمہوری قوتوں کی جدوجہد کو درست قرار دیا تھا ہمارے اکابرین نے ہمیشہ جمہور جمہوریت پارلیمنٹ کی بالادستی کی بات کی اور اس کے لئے سالہا سال جیل میں رہے ملک کے قیام کے بعد یہاں بار بار غیر جمہوری قوتیں برسراقتدار آتی رہیں ۔

ملک بننے کے بعد آئین ساز اسمبلی بنی جسے آئین بنانے کی ذمہ داری دی گئی مگر آئین کی منظوری سے پہلے اسے سبوتاژ کرتے ہوئے اسمبلی ختم کی گئی پھر اس ملک میں ون یونٹ بنا پہلا دوسرا تیسرا یہاں تک کہ چوتھا مارشل لاء بھی آیا 1970ء کے انتخابات کے نتائج سے انکار کیا گیا۔

بڑی مشکل سے1973ء کا آئین بنا جسے ایک جرنیل نے روندھ ڈالا حالانکہ کسی بھی ملک کے لئے سب سے اہم چیز آئین ہے آئین کی قدر نہ کرنے والوں کے ساتھ جو ہوتا ہے وہ بھی سب جانتے ہیں ۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے کبھی بھی ایک منٹ کے لئے بھی غیر جمہوری قوتوں کا ساتھ نہیں دیا خان شہید عبدالصمدخان اچکزئی سے لے کر آج تک اپنے نظریے پر کاربند ہیں اور اس کے لئے ہم نے بڑی قربانیاں دی ہیں ہمیں ہمارے نظریے اور جدوجہد پر فخر ہے نہ تو کوئی اسے اس سے ہمیں دستبردار کرسکتا ہے اور نہ مرعوب کرسکتا ہے ۔

آج ملک میں جو حالات ہیں اس میں سنجیدگی کا مظاہرہ کرنا ہوگا جذباتی ماحول میں حالات کا جائزہ لیا گیا تو پھر سب کا خداحافظ ہے کچھ نہیں رہے گا۔ اس ملک کے ہر شہری پر قانون کا احترام لازم ہے تمام اداروں کے حدود کا تعین موجود ہے مجیدخان اچکزئی نے تحریک استحقاق پیش کی جسے کمیٹی کے حوالے کیا گیا ہے۔

اس کی تو رپورٹ آئے گی مگر اس واقعے پر ہمیں دکھ اور افسوس ہے یہ ایک حادثہ تھا دنیابھر میں حادثات ہوتے ہیں جن میں کوتاہی لاپرواہی نظر اندازی اور ایسی دوسری چیزیں شامل ہوتی ہیں اور ان کی سزائیں طے ہیں جبکہ دہشت گردی اور اس کی تعریف کچھ اور ہے مگر مجید خان کے عمل سے کسی طرح سے یہ بات ثابت نہیں کہ اس میں کوئی دہشت گردی ہوئی کیا ہمارے پولیس افسران کو اس بات کا علم نہیں تھا کہ انہوں نے ایف آئی آر میں دہشت گردی کی دفعات شامل کیں ۔

انہوں نے کہا کہ مجیدخان اچکزئی کے واقعے کے بعد میڈیا کے بعض حلقوں کا کردار انتہائی مثبت رہا مگر بعض نے اس پر جو کردار ادا کیا اس پہ ہم گلہ تو نہیں کرتے مگر ان کا یہ کردار درست نہیں تھا۔انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد جس طرح سیاسی جماعتوں نے بیٹھ کر نئے وزیراعظم کا انتخاب کیا جمہوریت اور پارلیمنٹ کوچلنے کا موقع دیا یہ ایک نیک شگون ہے تمام جمہوریت نواز قوتیں بیٹھ کر ملک کو موجودہ صورتحال سے نکالیں ۔

اجلاس میں سردار عبدالرحمان کھیتران نے بلوچستان ماس ٹرانزٹ اتھارٹی کے مسودہ قانون سے متعلق مجلس قائمہ برائے محکمہ مالیات ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن بورڈ آف ریونیو اینڈ ٹرانسپورٹ کی رپورٹ ایوان میں پیش کی جبکہ وزیر خزانہ سردار اسلم بزنجو نے آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی آڈٹ رپورٹ برائے سال2016-17ء ایوان کی میز پر رکھی ۔اسمبلی کا آئندہ اجلاس جمعہ25اگست کو منعقد ہوگا۔