|

وقتِ اشاعت :   August 24 – 2017

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جنوبی ایشیاء کے بارے میں اپنے پہلے خطاب میں پاکستان کو تنبیہہ کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ اب پاکستان میں دہشت گردوں کی قائم پناہ گاہوں کے معاملے پر مزید خاموش نہیں رہ سکتا۔

فورٹ میئر آرلنگٹن میں تقریباً آدھے گھنٹے تک کی گئی تقریر میں صدر ٹرمپ نے پاکستان، افغانستان اور بھارت کے بارے میں اپنی پالیسی کے بارے میں وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان اور افغانستان کے معاملے میں امریکہ کے اہداف بالکل واضح ہیں اور وہ چاہتا ہے کہ اس خطے میں دہشت گردوں اور ان کی پناہ گاہوں کا صفایا ہو۔

ہماری پوری کوشش ہے کہ جوہری ہتھیار یا ان کی تیاری میں استعمال ہونے والا مواد دہشت گردوں کے ہاتھ نہ لگے۔امریکی صدر کے مطابق 20 غیر ملکی دہشت گرد تنظیمیں پاکستان اور افغانستان میں کام کر رہی ہیں جو کہ دنیا میں کسی بھی جگہ سے زیادہ ہیں۔ڈونلڈٹرمپ کا مزید کہنا تھا کہ امریکہ سے شراکت داری پاکستان کے لیے بہت سود مند ثابت ہوگی لیکن اگر وہ مسلسل دہشت گردوں کا ساتھ دے گا تو اس کے لیے مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں۔

ماضی میں پاکستان ہمارا بہت اہم اتحادی رہا ہے اور ہماری فوجوں نے مل کر ہمارے مشترکہ دشمن کے خلاف لڑائی لڑی ہے۔ پاکستان کے عوام نے دہشت گردی کی اس جنگ میں بہت نقصان اٹھایا ہے اور ہم ان کی قربانیوں اور خدمات کو فراموش نہیں کر سکتے۔

صدر ٹرمپ نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہا کہ اب وقت آگیا ہے کہ پاکستان اپنے ملک سے ان تمام شر انگیزوں کا خاتمہ کرے جو وہاں پناہ لیتے ہیں اور امریکیوں کو نشانہ بناتے ہیں۔ہم پاکستان کو اربوں ڈالر دیتے ہیں لیکن دوسری جانب وہ انہی دہشت گردوں کو پناہ دیتا ہے جو ہمارے دشمن ہیں۔

افغانستان کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ جلد بازی میں امریکی فوجیوں کے انخلاء کے باعث افغانستان میں دہشت گردوں کو دوبارہ جگہ مل جائے گی اور اس بارے میں وہ زمینی حقائق پر مبنی فیصلے کریں گے جس کی کوئی ڈیڈ لائن نہیں ہو گی۔

صدر ٹرمپ نے کہا کہ ان کا پہلے ارادہ تھا کہ وہ افغانستان سے فوجیں جلد واپس بلا لیں گے لیکن وہ عراق میں کرنے والی غلطیاں نہیں دہرائیں گے اور اس وقت تک وہاں موجود رہیں گے جب تک جیت نہیں مل جاتی۔امریکہ افغان حکومت کے ساتھ تب تک مل کر کام کرے گا جب تک ملک ترقی کے راستے پر گامزن نہیں ہوتا۔امریکی صدر کے بیان کاتجزیہ کیاجائے تو اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ وہ پاکستان کے حوالے سے نیک خواہشات نہیں رکھتے ۔

اس سے قبل بھی وہ پاکستان کے بارے میں بہت کچھ کہہ چکے ہیں۔ امریکی صدر کے حالیہ بیان میں پاکستان کی قربانیوں زد پہنچانے کی کوشش کی گئی ، نائن الیون کے بعد فرنٹ لائن کا کردار ادا کرنے کیلئے پاکستان سب سے پہلے میدان میں اترا اور اپنا بھرپور کردار ادا کیا تاکہ افغانستان میں امن قائم ہوسکے اور خطے سے دہشت گردی کا خاتمہ یقینی ہوجائے۔

آج بھی اگر پاکستان کے حالات کا جائزہ لیاجائے یا سیکیورٹی پالیسی پر غور کیاجائے تو دہشت گردی کے خلاف نیشنل ایکشن پلان، آپریشن ضرب عضب اور اب آپریشن ردالفساد جاری ہے ، پاکستان کی سیکیورٹی پالیسی امن کے حوالے سے مکمل واضح ہے ایک طرف ڈونلڈٹرمپ پاکستان کے ماضی کے کردار کی تعریف کررہے ہیں تو دوسری جانب من گھڑت الزامات بھی لگارہے ہیں جس کازمینی حقائق سے کوئی تعلق نہیں۔ 

پاکستان نے کالعدم تنظیموں کے خلاف بھرپور کارروائیاں کیں جس کے نتیجے میں متعدد ٹھکانے تباہ کئے گئے اہم دہشت گردمارے گئے اور آج وزیرستان سمیت شمالی علاقہ جات میں امن قائم ہوا ہے اور وہاں 90فیصد لوگ واپس اپنے علاقوں میں نقل مکانی کرچکے ہیں۔ 

حالیہ امریکی پالیسی بیان انتہائی مایوس کن ہے ۔اگر تمام پہلوؤں کا جائزہ لیاجائے اور ماضی کی جنگوں کو مد نظر رکھ کر سوچا جائے تو اس بات پر سب ہی کامل یقین کرینگے کہ خطے میں کشیدگی اورجنگی ماحول دنیا کو بہت زیادہ متاثر کرے گی۔ خطے میں پائیدار امن قائم کرنے کیلئے پاکستان کے کردار کو مد نظر رکھ کر کام کیا جائے اور باہمی تعلقات کو بہتر بنایا جائے تو مثبت نتائج حاصل کیے جاسکتے ہیں۔

پاکستان خود دہشت گردی کا شکار ہے وہ عالمی طاقتوں کے ساتھ ملکر خطے میں دہشت گردوں کا خاتمہ چاہتا ہے۔ پاکستان کو ہدف تنقید بنانا اور من گھڑت الزامات لگانا باہمی تعلقات پر بہت ہی منفی اثرات مرتب کرے گا۔ 

اب یہ امریکہ سمیت تمام عالمی طاقتوں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ پاکستان کے خلاف من گھڑت بیانات کی بجائے ایک خوشگوار ماحول میں تعاون کرتے ہوئے دہشت گردی کے خلاف بھرپور طریقے سے اپنا کردار ادا کریں ۔ پاکستان کی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں قربانیوں کو فراموش کرنا انتہائی افسوسناک عمل ہے۔