|

وقتِ اشاعت :   September 4 – 2017

کراچی: ماضی میں ’’برما‘‘ کے نام سے شہرت رکھنے والے میانمار میں آج مسلمانوں کے خلاف ظلم و ستم، بربریت اور نسل کشی کا بھیانک ترین سلسلہ جاری ہے اور ساری دنیا اس بارے میں صرف زبانی جمع خرچ میں مصروف ہے۔

اس المیے کو درست تناظر میں سمجھنے کےلیے برما کے روہنگیا مسلمانوں کے حوالے سے کچھ اہم معلومات پیش کی جارہی ہیں:

میانمار (سابقہ برما) کے مغربی صوبے راكھین میں روہنگیا نسل کے تقریباً دس لاکھ مسلمان آباد ہیں جو عقیدے کے اعتبار سے سنی ہیں لیکن ان کی زندگیاں تشدد، امتیازی سلوک، بے بسی اور مفلسی کی ایسی تصویر پیش کررہی ہیں جسے دیکھ کر انسانیت خون کے آنسو روتی ہے۔

روہنگیا مسلمانوں کے خلاف نفرت اور تعصب کا یہ سلسلہ 1982 سے شروع ہوا جب میانمار میں ایک نسل پرستانہ قانون منظور کیا گیا جس کے تحت وہاں رہنے والے کسی بھی نسلی گروہ کو اپنی شہریت تسلیم کروانے کےلیے یہ ثابت کرنا لازمی قرار دیا گیا تھا کہ وہ 1828 میں برطانوی قبضے سے قبل بھی میانمار ہی میں مقیم تھا۔

اگرچہ روہنگیا مسلمان وہاں پر پندرہویں صدی عیسوی سے رہ رہے ہیں لیکن میانمار کی حکومت نے ان کے پیش کردہ تاریخی ثبوت ماننے سے انکار کردیا اور یوں ایک ہی جھٹکے میں تمام روہنگیا مسلمانوں کےلیے برما (میانمار) کی شہریت ختم کردی گئی۔

پچھلے 35 سال سے روہنگیا خواتین، بچوں اور مردوں کے پاس کسی بھی ملک کی شہریت نہیں۔ ميانمار میں صدیوں سے رہنے کے باوجود وہاں انہیں غیر قانونی طور پر مقیم بنگلہ دیشی پناہ گزین قرار دیا جاتا ہے۔

اسی غیر منصفانہ اور غیر انسانی قانون کے باعث روہنگیا مسلمان نہ تو اپنی مرضی سے ایک جگہ سے دوسری جگہ پر جاسکتے ہیں اور نہ ہی اپنی مرضی سے کوئی کام یا کاروبار ہی کرسکتے ہیں۔ میانمار کی حکومت ان کے ٹوٹے پھوٹے گھروں تک کو کسی بھی وقت خالی کروا لیتی ہے اور شہریت نہ ہونے کی وجہ سے یہ لوگ اس ظلم کے خلاف کوئی قانونی چارہ جوئی تک نہیں کرسکتے لہذا در بدر پھرنا ان کا مقدر ٹھہرتا ہے۔

روہنگیا مسلمانوں کے خلاف تعصب اور نفرت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ میانمار میں بدھ مت کے پیروکار بڑی حقارت سے انہیں ’’بنگالی‘‘ کہہ کر دھتكار دیتے ہیں کیونکہ ان کی بولی بنگلہ دیش کے جنوبی علاقے چٹاگانگ میں بولی جاتی ہے۔

تمام تر ناانصافی اور سرکاری سرپرستی میں کیے جانے والے مظالم کے باوجود میانمار کے بدھسٹ افراد، روہنگیا مسلمانوں پر یہ الزام لگاتے آرہے ہیں کہ وہ میانمار کی افواج پر حملے کرتے ہیں جس کے جواب میں ان کے خلاف کارروائیاں کی جاتی ہیں۔

برمی فوج کا کہنا ہے کہ اس کی سرحدی چوکیوں پر ہونے والے حالیہ چند حملوں میں ’’روہنگیا باغی‘‘ ملوث تھے جو ملکی امن کےلیے خطرہ ہیں اور جنہیں جواب دینے کےلیے روہنگیا باشندوں کے کئی دیہاتوں کو جلا دیا گیا۔

اقوامِ متحدہ نے تسلیم کیا ہے کہ روہنگیا مسلمانوں کو کسی قسم کے حقوق یا اختیارات حاصل نہیں؛ اور یہ کہ روہنگیا مسلمان دنیا کی وہ اقلیت ہیں جنہیں اس وقت سب سے زیادہ نسلی تشدد کا سامنا ہے۔

اقوام متحدہ کے مطابق 2012 میں مذہبی بنیادوں پر تشدد کا سلسلہ شروع ہونے کے بعد سے تقریباً 120,000 روہنگیا مسلمان راكھین چھوڑ چکے ہیں جبکہ ان میں سے متعدد افراد سمندر میں کشتیاں ڈوبنے سے جاں بحق بھی ہوئے۔

ملائیشیا اور تھائی لینڈ کی سرحد کے قریب روہنگیا مسلمانوں کی متعدد اجتماعی قبریں بھی ملی ہیں۔ 2015 میں جب میانمار کی حکومت نے غیرقانونی تارکین وطن کے خلاف سخت اقدامات کی آڑ میں خاص طور پر روہنگیا مسلمانوں کی بستیوں کو نشانہ بنایا تو کشتیوں پر سوار سینکڑوں روہنگیا کئی دنوں تک سمندر میں پھنسے رہے۔

اس مسئلے کا ایک اور سنگین پہلو یہ ہے کہ روہنگیا مسلمانوں کی مجبوری کا فائدہ انسانوں کی اسمگلنگ کرنے والے گروہ اٹھا رہے ہیں۔ یہ لوگ اپنی جمع پونجی انہیں سونپ کر کسی محفوظ مقام کےلیے اپنی زندگی خطرے میں ڈالنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ میانمار سے متصل بنگلا دیش کے جنوبی حصے میں تقریباً تین لاکھ روہنگیا باشندے رہتے ہیں جبکہ ان میں سے زیادہ تر افراد میانمار سے جان بچا کر وہاں پہنچے ہیں۔

اس معاملے میں خود بنگلا دیشی حکومت کا کردار بھی کچھ کم ظالمانہ نہیں کیونکہ اس نے اب تک بہت ہی کم روہنگیا باشندوں کو اپنے یہاں پناہ گزینوں کے طور پر قبول کیا ہے۔ سمندر کے راستے، کشتیوں کے ذریعے بنگلا دیش میں داخلے کی کوشش کرنے والے روہنگیا مسلمانوں کو اکثر بنگلا دیشی فوجیں زبردستی واپس میانمار کی طرف بھیج دیتی ہیں جہاں موت ان کی منتظر ہوتی ہے۔

بنگلا دیش کے علاوہ روہنگیا لوگ بھارت، تھائی لینڈ، ملائیشیا اور چین جیسے ممالک کا بھی رخ کر رہے ہیں کیونکہ یہ سبھی ممالک میانمار سے قریب ہیں۔ انسانی حقوق کے متعدد گروپ میانمار حکومت سے درخواست کرچکے ہیں کہ روہنگیا کو بنیادی انسانی حقوق فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ انہیں ملکی شہریت دی جائے۔

میانمار سے امن کا نوبل انعام حاصل کرنے والی خاتون حکمران جماعت کی سربراہ آنگ سان سوچی نے روہنگیا مسلمانوں کے معاملے پر مجرمانہ خاموشی اختیار کر رکھی ہے اور حالیہ دنوں میں جب ایک صحافی نے ان سے روہنگیا مسلمانوں کے انسانی حقوق کےلیے آواز اٹھانے کے بارے میں سوال کیا تو انہوں نے یہ کہتے ہوئے جواب دینے سے معذرت کرلی کہ سیاسی بیان دینا ان کا کام نہیں لہذا وہ اس بارے میں کچھ نہیں کہیں گی۔ اس طرزِ عمل پر آنگ سان سوچی کو شدید تنقید کا سامنا ہے کیونکہ اس سے یہی تاثر ابھرتا ہے کہ وہ روہنگیا مسلمانوں کے معاملے میں یا تو وہاں کے شدت پسند بدھسٹ طبقے کی رائے سے اتفاق کرتی ہیں یا پھر اپنی جان کے خوف سے اس معاملے پر میانمار کی طاقتور اور ظالم فوج کے خلاف کچھ نہیں بولنا چاہتیں۔