|

وقتِ اشاعت :   September 14 – 2017

میں بلوچستان سے نہیں ہوں، لہذا مجھے بھی پنجابی وزیر اعظم کے بارے میں ہی بات کرنی چاہیے، میڈیا میں آج کل یہی باسٹھ تریسٹھ کی بات بکتی ہے۔

لیکن مجھے بحیثیت پاکستانی شرم آ رہی ہے کہ ہم تو ریاست کے طور پر بھی نہ صادق ہیں اور نہ امین۔ ہم انسانوں کے اندر بدرجہ اتم یہ خاصیت پائی جاتی ہے کہ ہم اپنی نسل سے الگ لوگوں کے دکھ درد سے خود کو الگ سمجھ لیتے ہیں۔

یہ جبلی عادت انسان نے پتھر کے زمانے میں سیکھی جب وسائل کم، اور بقا کا انحصار اپنی نسل کے لوگوں سے جڑے رہنے پر تھا۔ یہ تو ریاستی نظام کے قائم ہونے کے بعد کی بات ہے کہ مختلف نسلوں کے لوگوں کو جغرافیائی بنیاد پر ایک ریاست میں ساتھ رہنا پڑ گیا۔

پاکستان بھی وجود میں آیا تو یہ ایک ٖفیڈریشن بنا۔ جس میں پنجاب، سندھ، خیبر پختونخواہ ، بلوچستان، بنگال اور شاہی ریاستیں شامل ہوئی۔ سب سے عجیب بات تو یہ رہی کہ بہار اور یو پی کے مسلمانوں نے جو مطالبہ پاکستان میں آگے تھے کو ریڈ کلف کی بنائی لکیر سے باہر رہ جانا پڑا۔

فیوڈل پنجاب خوشحال تھا اور بالکل ہی آخر میں پاکستان کا حصہ بنا ۔ بلوچستان کا الحاق اور آج کے حالات کے لئے تاریخ کا مطالعہ ضروری ہے۔

بلوچستان کا پاکستان سے الحاق خان آف قلات، فوج کشی اور کچھ نہ وفا ہو سکنے والے وعدوں کا نتیجہ تھا۔

شیر باز مزاری جیسے بلوچ مصنفوں کے مطابق بلوچستان کا پاکستان سے 1947 سے اب تک کا رشتہ بلوچستان کی مایوسی کا لمبا سفر ہے۔

پاکستان سے اس کے شامل ہوجانے والوں کو بڑی امیدیں تھیں۔ آج پاکستان ستر سال کا ہو گیا ہے۔ کتنی امیدیں پوری ہوئی اور کس کی۔ یہ سوال تو پوچھنا بنتا ہے۔ بلوچستان پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے ۔

معدنیات سے مالامال۔ شاید یہی اس کا قصور رہا ہے۔ بلوچستان کا ایک بڑا حصہ ٖباقی پاکستانیوں کے لیے نا قابل رسائی ہے۔ جو ترقی کا کام ہو رہا ہے وہ زیادہ تر صرف پشتون بیلٹ میں ہے۔

بیشتر حصہ میں فوج نے داخلہ بند کر رکھا ہے۔ عام پاکستانی بلوچستان کے بارے کتنا جانتا ہے؟

ہمیں دھماکوں، مسنگ پرسنز اور اغوا کی داستانوں سے ہی پتا چلتا ہے کہ بلوچستان ہے۔ 1971 میں مشرقی پاکستان ہم سے الگ ہوگیا۔ تب سے لیکر آج تک ہمیں یہ بھی نہیں معلوم کہ ہوا کیا تھا۔

نہ حمود الرحمن رپورٹ عام ہوئی اور نہ ہی آج تک پاکستان کے عام عوام جانتے ہیں کہ ہم نے کیا غلط کیا کہ ہمارا ایک حصہ ہم سے آزادی کے اتنا جلدی بعد چلا گیا۔

ہمارے بیانئے بھارتی سازش اور بنگالیوں کی بلاوجہ کی بغاوت کے گرد گھومتے ہیں۔ ویسےاپنے کرتوتوں کا کچھ اندازہ ہم لگا سکتے ہیں اس بات سے کہ آج بھی بنگالی لوگوں کے بارے ہم متؑعصبانہ اور ہتک آمیز الفاظ ہی استعمال کرتے ہیں۔

مشرقی پاکستان میں نوکری کر کے آنے والے لوگ بتاتے ہیں کہ مغربی پاکستان کے کئی افسروں کا بنگالیوں سے ہتک آمیز رویہ آخری حدوں کو چھوتا تھا۔

بنگال کی شکایات پر کوئی کان نہیں دھرا گیا۔ سقوط ڈھاکہ ہو گیا ۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ہم اس سقوط سے سبق حاصل کرتے۔ مگر ہم نے تاریخ کا بلیک آوٹ کر دیا۔ کچھ بھی نہیں سیکھا۔

آج بلوچستان میں امن و امان کی صورتحال مشرقی پاکستان سے کچھ کم بری نہیں ہے۔بس جغرافیائی طور پر بلوچستان زیادہ قریب ہے اور اس کو کنٹرول کرنا آسان ہے۔ اس وقت بھی بلوچستان کے اندر دو بلوچستان ہیں۔

ایک کنٹونمنٹ کے اندر اور دوسرا باہر۔ دونوں ہی ایک دوسرے کو شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ امن و امان صرف کنٹونمنٹ کے اندر ہے۔ بلوچستان میں ہر سال ہم کتنے ہی لوگ کھو دیتے ہیں۔

عام لوگ، پڑھے لکھے لوگ، قلم اور آواز اٹھانے والے،قانون نافذ کرنے والے، ریاست چلانے والے لوگ۔ کسی بھی ریاست کی رٹ کو برباد کرنے والے لوگ بڑے سیانے ہوتے ہیں۔ وہ سب سے پہلے پڑھے لکھے باشعور لوگ ختم کرتے ہیں۔ کوئٹہ میں 8 اگست 2016 میں وکیلوں کا اجتماعی قتل کیا گیا۔

پھر ابھی کوئٹہ میں پھر کل قتل و غارت ہوئی مگر میڈیا کا زور سابق وزیر اعظم کی ریلی پر تھا۔ اسی ریلی میں جب نکالے جانے والے وزیر اعظم آئین بدلنے کی بات کر رہے تھے تو ان کی نظر میں صرف اپنا اقتدار تھا۔

خبروں کے مطابق جب کوئٹہ میں 15 لوگ شہید ہوے تو اس وقت صوبے کے قابل احترام وزیر اعلی لاہور اسی ریلی میں تھے۔

سرکار، جمہوریتوں میں صوبوں کو بےیارو مددگار نہیں چھوڑا جاتا۔ آئین بدلیں نہ بدلیں، بلوچستان کی مد میں ریاست کے اطوار ضرور بدلیے۔

بلوچستان کی مد میں کافی دیر پہلے ہی ہوچکی ہے۔ کچھ تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ بات بہت آگے نکل چکی ہے۔ کچھ کا خیال ہے کہ ابھی بھی بات سنواری جاسکتی ہے۔

ریاست کا سب سے اہم کام ہے پالیسی بنانا، اور امن قائم کرنا۔ بلوچستان کی مد میں جو بھی پالیسی ہے وہ کام نہیں کر رہی۔ بلوچستان کو میڈیا، اور پالیسی سازوں کی مدد کی ضرورت ہے۔ ایک اور سقوط پاکستان تک بات نہ جانے دیں۔

بشکریہ ہم سب اور قرۃ العین فاطمہ