|

وقتِ اشاعت :   September 19 – 2017

میانمار سے ہزاروں روہنگیا مسلمانوں کے انخلاء کے بعد دنیا بھر کی جانب سے لگائے جانے والے نسل کشی کے الزامات پر جمہوریت پسند رہنما آنگ سان سوچی کا کہنا ہے کہ ان کا ملک بین الاقوامی جانچ پڑتال سے خوف زدہ نہیں۔

امریکی خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کی ایک رپورٹ کے مطابق رکھائن میں جاری کشیدہ صورتحال پر اپنے پہلے قومی خطاب میں میانمار کی نوبیل انعام یافتہ رہنما کا کہنا تھا کہ ایک ماہ کی قلیل مدت میں 4 لاکھ سے زائد روہنگیا مسلمانوں کی بنگلہ دیش ہجرت کے باوجود کشیدہ علاقے میں مسلمانوں کی ’بڑی تعداد‘ موجود ہے۔

آنگ سان سوچی نے دعویٰ کیا کہ ‘رکھائن میں روہنگیا مسلمانوں کی نصف سے زائد بستیاں اب بھی آباد ہیں’۔

خیال رہے کہ 25 اگست کو روہنگیا عسکریت پسندوں کی جانب سے میانمار کی سیکیورٹی فورسز پر ہونے والے حملے اور اس کے بعد رکھائن میں شروع ہونے والے ظلم و ستم پر آنگ سان سوچی کو شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔

فوجی کریک ڈاؤن سے جان بچا کر بھاگنے والے روہنگیا مسلمانوں نے بنگلہ دیش کا رخ کیا جبکہ پیچھے رہ جانے والی ان کی بستیاں شعلوں کی نذر کردی گئیں۔

میانمار حکومت کی جانب سے اس تمام صورتحال کا ذمہ دار روہنگیا مسلمانوں کو ہی قرار دیا جارہا ہے تاہم متاثرہ افراد کا کہنا ہے کہ فوجی اہلکار اور بدھ مت کے ماننے والے مشتعل افراد ان پر مظالم ڈھا رہے ہیں۔

میانمار کے دارالحکومت نیپیاتو میں غیر ملکی سفارت کاروں سے بات کرتے ہوئے آنگ سان سوچی نے کہا کہ ان کی حکومت علاقے کی صورتحال معمول پر لانے کے لیے کام کررہی ہے۔

میانمار کی رہنما نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ ’5 ستمبر سے کشیدگی کا شکار علاقے رکھائن میں نہ کوئی جھڑپ ہوئی ہے اور نہ ہی کوئی کلیئرنس آپریشن‘۔

انہوں نے کہا کہ ’ہمیں اس بات پر تشویش ہے کہ مسلمانوں کی بڑی تعداد ہجرت کرکے بنگلہ دیش جارہی ہے، ہم سمجھنا چاہتے ہیں کہ اس ہجرت کی وجہ کیا ہے، ہم میانمار چھوڑ کر جانے والے اور یہاں موجود روہنگیا مسلمانوں سے بات چیت کرنا چاہتے ہیں‘۔

اس موقع پر انہوں نے وہاں موجود سفارت کاروں کو بھی دعوت دی کہ وہ حکومت کے ساتھ کشیدہ صورتحال کا شکار علاقوں کا دورہ کریں تاکہ صورتحال کو بہتر انداز میں سمجھا جاسکے۔

دوسری جانب میانمار اور بنگلہ دیش کے سرحدی علاقے میں ریلیف کیمپوں میں موجود ایک روہنگیا مسلمان عبدالحافظ کا کہنا تھا کہ ‘ایک وقت تک ہم سوچی پر فوج سے زیادہ بھروسہ کرتے تھے لیکن وہ ’جھوٹی‘ ہیں اور آج روہنگیا مسلمان ابتر حالت میں ہیں’۔

عبدالحافظ کے مطابق ’سوچی غیرملکی صحافیوں کو تباہ حال علاقوں تک رسائی دیں، اگر یہ ثابت ہوجاتا ہے کہ روہنگیا مسلمان غلط ہیں تو دنیا ہمیں قتل کردے یا سمندر میں دھکیل دے ہمیں منظور ہے‘۔

گزشتہ پانچ سالوں سے راکھائن میں لسانی اور مذہبی تناؤ میں اضافہ ہوا ہے لیکن حالیہ پرتشدد واقعات کی لہر سب سے بدتر ہے اور اس سے جان بچا کر بھاگنے کی کوشش میں کئی افراد سمندر میں ڈوب کر اپنی جانیں گنوا چکے ہیں۔

2012 میں بھی پرتشدد واقعات کے نتیجے میں ہزاروں روہنگیا مسلمان ہلاک اور لاکھوں ہجرت کرنے یا گھر بار چھوڑ کر کیمپوں میں رہنے پر مجبور ہو گئے تھے۔

حال ہی میں پرتشدد واقعات کا آغاز اُس وقت ہوا جب عسکریت پسندوں نے رکھائن میں پولیس چوکی پر حملہ کرکے 15 اہلکاروں کو ہلاک کردیا تھا، جس کا الزام میانمار کی فوج نے روہنگیا عسکریت پسندوں پر عائد کرتے ہوئے ان کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کیا اور روہنگیا افراد کے متعدد گاؤں نذر آتش کردیے، جبکہ لاکھوں کی تعداد میں روہنگیا مسلمان بنگلہ دیش ہجرت کرنے پر مجبور ہوگئے۔