|

وقتِ اشاعت :   September 20 – 2017

کوئٹہ:  بلوچستان اسمبلی کے اراکین کا چیک پوسٹوں پر ایف سی کے رویے کے خلاف احتجاج ،محکمہ ایس اینڈ جے ڈی کی صوبہ بلوچستان کے جعلی لوکل ڈومسائل سے متعلق رپورٹ ایوان میں پیش ڈاکٹر کی ڈگریوں کی رپورٹ بھی ایوان میں کی گئی ۔

بلوچستان اسمبلی کا اجلاس ایک گھنٹے کی تاخیر سے اسپیکر راحیلہ حمیدخان درانی کی صدارت میں شروع ہوا ۔اجلاس کے آغاز پر سابق وزیر اعلی ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے اجلاس تاخیر سے شروع ہونے پر احتجاج کیا اور کہاکہ اجلاس کا وقت چار بجے مقرر ہوتا ہے لیکن اکثر یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ اجلاس ایک گھنٹے کی تاخیر سے شروع ہوتا ہے اسپیکر کو اجلاس وقت پر شروع کرنا چاہیے ۔

اجلاس میں نیشنل پارٹی کے رکن حاجی اسلام بلوچ نے تحریک التواء پیش کرتے ہوئے کہاکہ ضلع پنجگور میں لینڈ مافیا سابق صوبائی وزیر کے ساتھ ملکر سرکاری اراضی پر قبضہ کررہا ہے ہم نے گزشتہ چار سالوں سے مختلف اوقات میں پنجگور میں ہونیو الوں قبضوں کی نشاندہی کی ہے سابق صوبائی وزیر نے پبلک لائبریری اور آفیسر کلب کی زمین پر قبضہ کرنے کی کوشش کی ۔

انہوں نے اپنے دور میں زراعت کی سرکاری زمینوں پر قبضہ اور انہیں اپنے نام پر الاٹ کردیا ہماری پارٹی اس بات کی اجازت کسی صورت نہیں دی جائے گی کہ زمینوں پر قبضہ کریں لہذا ایوان تحریک کی حمایت کرے اور ناجائز الاٹمنٹ کو کینسل کیا جائے صوبائی وزیر صحت رحمت بلوچ نے کہاکہ وزیراعلی بلوچستان اور صوبائی وزیر ریونیومعاملے کو سنجیدگی سے لیں ۔

سابق صوبائی وزیر نے اپنے دور حکومت میں سبزی منڈی کو آگ لگائی ،زراعت کی زمینیں قبضہ کی ایماندار ڈپٹی کمشنر پر حملہ کیا اور جولوگ اپنے آپ کو نیک پارسا کہتے ہیں ان کا ریکارڈ سب کو معلوم ہیں

انہوں نے بیروز گار نوجوانوں کو روز گا رکے بہانے چھ چھ مہینے ان کی تنخواہیں وصول کی یہ لوگ ڈبل گھوڑے پر سوار ہیں ان کے ہاتھ غریبوں ،مزدوروں ،حجاموں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں ان کو پوچھنے والا کوئی نہیں پنجگورمیں خانہ جنگی کی صورتحال پیداہورہی ہے ۔

حکومت اس کا سنجیدگی سے نوٹس لیں جمعیت علماء اسلام کے رکن سردار عبدالرحمن کھتیران نے کہاکہ زمینوں پر قبضہ پورے بلوچستان کا ہیں لہذا تحریک میں پنجگورکے بجائے پورے بلوچستان کو شامل کیاجائے ۔

صوبائی وزیر ریو نیوجعفر مندوخیل نے کہاکہ پرائیویٹ اور سرکاری اراضیات پر قبضہ ہورہا ہے سرکاری اس معاملے میں سنجیدہ نہیں تحریک التواء کو بھر پورسپورٹ کررہا ہوں ۔

صوبائی وزیر تعلیم عبدالرحیم زیارتوال نے کہاکہ صوبے میں ان سیٹل زمینوں کا مسئلہ ہے ہم پہلے بھی واضح کرچکے ہیں کہ ان سیٹل زمینیں قبائل کی ملکیت جہاں تک سرکاری زمینوں پر قبضے کا معاملہ تو سرکاری زمین کو الاٹ نہیں کرسکتا ہم وزیر ریونیوسے ریکارڈ طلب کرکے اس کی تحقیقات کرینگے ۔

جس کے بعد اسپیکر راحیلہ حمید خان درانی نے ایوان سے رائے شماری کے بعد تحریک کو پنجگورکے بجائے پورے بلوچستان کی ترمیم کے ساتھ 21ستمبر کے اجلاس میں بحث کیلئے منظور کرلیا۔

پشتونخواملی عوامی پارٹی کے رکن وپبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے چیئرمی مجید خان اچکزئی نے ڈی ایم جی ،سی ایس ایس ،پی سی ایس اور پی جی او افسران سے متعلق اپنا توجہ دلاؤ نوٹس پیش کرتے ہوئے کہاکہ کیا یہ درست ہیں کہ نو ے کی دہائی کے آخر میں وفاقی حکومت نے فیصلہ کیاتھا جس کے تحت ڈی ایم جی گروپ ،او ایم جی گروپ اور پولیس افیسر کا گروپ جن کا ڈومسائل دیگر صوبوں کا ہوں اور وہ بلوچستان میں تعینات ہوں ۔

انکے لئے اورانکی فیملی کو چار ریٹرن ائر ٹکٹ دیئے جائے اور اگلے گریڈ میں تعیناتی اور اضافی تنخواہ کی اجازت 2008-2009میں دی گئی اور مذکورہ پالیسی بناتے وقت وفاقی حکومت نے صوبائی حکومت سے کوئی مشاورت نہیں کی ۔

توجہ دلاؤ نوٹس پر بات کرتے ہوئے مجید خان اچکزئی نے کہاکہ ہمارے صوبے میں باہر کے لوگ آتے ہیں انہیں رنگ رنگ کی سہولیات دی جاتی ہیں لیکن ہمارے صوبے افسران جب باہر جائیں توا نہیں کوئی مراعت نہیں ملتی ۔

تمام صوبوں کا ایک قانون ہیں لیکن بلوچستان کیلئے ایک الگ قانون ہیں سی ایس پی افیسران ریٹائرمنٹ کے بعد بھی مراعت لیتے ہیں مجھے اپنی مخلوط حکومت سے گلہ ہیں کہ وہ اس معاملے پر اقدامات نہیں کررہے ہیں ۔

انہوں نے کہاکہ این اے 120کے الیکشن میں پشتونوں کو ووٹ تک نہیں ڈالنے دیا گیا اور یہاں مالاکنڈ سے آنے والا ایک افسر مستونگ کا ڈومسائل بنا کر سرکاری ملازمت پر تعینات ہیں ۔

نیشنل پارٹی کے رکن میر خالد لانگو نے کہاکہ ڈی ایم جی گروپ کے افسران کا رویہ درست نہیں ہے ۔

عدالت سے گرفتاری کے حکم کے بعد میں محکمہ خزانہ کی تمام گاڑیاں واپس کردی تھی لیکن ایک گاڑی میرے گاؤں میں تھی جس کیلئے ایک افسر نے بدتمیزی کی اور کہاکہ میں خالد لانگو کو گلے سے پکڑوں گا ہم عوامی نمائندے ہیں اگر میں نے کرپشن کی ہے تو اس کی سزا مجھے عدالت دے گی کسی اور کو کوئی حق نہیں کہ میر ا گلہ پکڑے ۔

مسلم لیگ (ن) کے رکن ڈاکٹر رقیہ ہاشمی نے کہاکہ چھ ماہ گزرنے کے باوجو دبھی ڈی ایم جی گروپ کے افسران کے حوالے سے بنائی گئی کمیٹی کی رپورٹ یا معاملات میں پیشرفت نہیں ہوئی ۔

سابق وزیر ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے کہاکہ اسلام آباد ان مسائل کو نہیں سنا چاہتا میں نے ڈھائی سال بطور وزیراعلی او رچھ سال سینٹ میں ان چیزوں پر بہت کام کیا لیکن وفاق کا رویہ ایسٹ انڈیا کمپنی سے بھی بد تر ہیں ۔

ڈپٹی اپوزیشن لیڈر زمرک خان اچکزئی نے کہاکہ ہم چاہتے ہیں کہ ان معاملات پر کام ہوں اگر ثبوت ہیں تو انہیں سامنے لایا جائے اور یہ مظالم بند کئے جائیں ۔