|

وقتِ اشاعت :   September 29 – 2017

کراچی : وزیر مملکت برائے بندر گاہ و جہاز رانی چوہدری جعفر اقبال نے کہا ہے کہ چائنہ کنسٹرکشن کمپنی کی جانب سے گوادرتا کوسٹل ہائی وے چھ رویہ سڑک اور دو ٹرینیں چلانے کے لیے 15ارب روپے کا بلا سودی قرضہ فراہم کیا جارہا ہے، 18اکتوبر کو گوادر پورٹ کی تاریخ کا سب سے بڑا جہاز لنگر انداز ہوگا۔

اگلے سال تک پاکستان کی سب سے بڑی رن وے گوادر پورٹ پر بنائے جائے گی جس کے لیے چین 18 تا20 ارب روپے گرانٹ دے گا۔یہ بات انہوں نے پی این ایس سی بلڈنگ میں میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے کہی۔ ان کے ساتھ چیئرمین پی این ایس سی عارف الہی، ڈی جی پورٹ اینڈ شپنگ اسد چاندنہ بھی موجود تھے۔ 

قبل ازیں وزیر مملکت نے چیئرمین پی این ایس سے ملاقات کی جس میں چیئرمین نے انہیں ادارے کی کارکردگی سے آگاہ کیا۔بعدازاں میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے وزیر مملکت نے کہا کہ چین کے نائب وزیر ٹرانسپورٹ پاکستان آئے ہوئے ہیں جن کے ذریعے چینی کنسٹرکشن کمپنی سے 15ارب روپے کا بلاسود قرضہ لینے کا معاہدہ طے پاگیا ہے۔

اس رقم کے ذریعے سی پی کے تحت گوادر پورٹ کو کوسٹل ہائی وے سے ملایا جائے گا جس کے لیے چھ رویہ سٹرک تعمیر کی جائے گی اور دو ٹرینیں چلائی جائیں گی۔

انہوں نے بتایا کہ گوادر پر عنقریب دو بڑے جہاز لنگر انداز ہونے والے ہیں، 18اکتوبر کو آنے والا جہاز اس پورٹ کی تاریخ کا سب سے بڑا جہاز ہوگا جو کہ پہلی بار یہاں پہنچے گا۔

وزیر مملکت کا کہنا تھا کہ گوادر پورٹ اتھارٹی (جی ڈی اے) کی جانب سے فری زون میں بزنس سینٹر بنایا جارہا ہے جو کہ دوبرس میں مکمل ہوجائے گا جس میں کمیونٹی سینٹر بھی ہوگا، اس میں کسٹم، پی این ایس سی، ایف بی آر، امیگریشن اور جی ڈے اے کے دفاتر بھی ہوں گے۔

فیری سروس کے معاملے پر انہوں نے بتایا کہ کراچی تا گوادر فیری سروس کا کام بتدریج آگے بڑھ رہا ہے، کراچی کی سڑکوں کا رش کم کرنے کے لیے ڈیفنس تا پورٹ قاسم براستہ سمندر فیری سروس چلانے چلانے کا منصوبہ چند ماہ میں شروع کریں گے۔

وزیر مملکت نے بتایا کہ کراچی کے نزدیک پپری میں ریلوے کی بڑی زمین خالی ہے، منصوبہ ہے کہ اسے کراچی پورٹ کے زیر استعمال لاکر یہاں سے ٹرین چلائی جائے تاکہ کنٹینر اترنے کے بعد ٹرک کے بجائے ٹرین کے ذریعے منتقل کیا جائے جس سے ٹرانسپورٹیشن کی لاگت انتہائی کم ہوجائے گی۔ 

چوہدری جعفر اقبال نے بتایا کہ کراچی پورٹ پر 4 ہزار کے قریب کنٹینر خالی پڑے ہیں جنہیں شپنگ کمپنیاں چھوڑ گئیں، کسٹم کے ذریعے انہیں نیلام کرایا جائے گا تاکہ پورٹ پر جگہ خالی ہو، ان میں سے 3ہزار کے قریب کے پی ٹی اور بقیہ پورٹ ہینڈلنگ کرنے والی دیگر کمپنیوں کے پاس پڑے ہیں ۔