|

وقتِ اشاعت :   October 15 – 2017

کوئٹہ: عوامی نیشنل پارٹی کے صوبائی بیان میں صوبے کی تعلیمی حالت کوافسوسنا ک قرار دیتے ہوئے کہا گیاہے کہ میرٹ کا نعرہ لگانے والے تعلیمی شعبے کا بیڑہ غرق کرنے پر تلے ہوئے ہیں ۔

تعلیمی ایمرجنسی کے نفاذ اوربجٹ میں اربوں روپے سالانہ اضافے کا کوئی مثبت نتیجہ نہیں نکلابلکہ تعلیم کے شعبے کو محض عزیز رشتہ داروں کی نوکری کا ذریعہ بنالیا گیا ہے جس کا واضح ثبوت شعبہ کالجر میں حال ہی متعارف کرایا گی۔

ا بی ایس پروگرام ہے جس میں ریمونیریشن کی آڑ لے کر ماسٹر کلاسز کے طلبہ وطالبات کو پڑھانے کے لئے ماسٹرڈگری ہولڈرز سے درخواستیں طلب کی گئی ہیں ۔

بی ایس پروگرام کے نامپر صوبے کا مستقبل دا پر لگایا جارہا ہے عدالت عالیہ اس کا نوٹس لے بلوچستان پبلک سروس کمیشن کی بجائے کالج پرنسپل کے ذریعے لیکچررز کی بھرتیوں کی کوشش نہ صرف تعلیم کے شعبے کے ساتھ مذاق ہے بلکہ اس سے صوبے میں تعلیم کا معیار مزید گھٹ جائے گا اور یہ نتیجہ نکلے گا کہ ملک اوربیرون ملک بلوچستان کے طلبہ کی ڈگریاں اپنی حیثیت کھودیں گی۔

، میرٹ کے دعویداروں نے وائس چانسلر بہادر خان رودینی کے دور میں بلوچستان یونیورسٹی کی جو حالت کی اور ان کے اتحادی ڈاکٹر مالک بلوچ جب وزیرتعلیم تھے ان کے دور میں ہونے والی سیاسی بھرتیوں کا خمیازہ آج تک صوبے کے عوام بھگت رہے ہیں۔

محکمہ تعلیم کو ایڈہاک پالیسی پر چلانے کا عمل ہم نے پہلے بھی عدالت کے ذریعے رکوایاآئندہ بھی چپ نہیں بیٹھیں گے۔

باچاخان مرکزکوئٹہ سے جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا ہے کہ حال ہی میں محکمہ تعلیم(کالجز )میں ایم اے ایم ایس سی پاس امیدواروں سے درخواستیں طلب کی گئی ہیں تاکہ انہیں ریمونیریشن کے نام پر بھرتی کیا جائے ۔

بیان میں کہا گیاہے کہ یہ فیصلہ صوبے میں اعلی تعلیم کے شعبے کو تباہی سے دوچار کردے گاکیونکہ بلوچستان پبلک سروس کمیشن کو نظر انداز کرکے کالجز کے سربراہان کے ذریعے ان بھرتیوں میں شفافیت کا کوئی امکان نہیں۔

عوامی نیشنل پارٹی صوبے کے تعلیم یافتہ نوجوانوں کو روزگار فراہم کرنے کی راہ میں رکاوٹ نہیں ڈالنا چاہتی بلکہ پارٹی یہ سمجھتی ہے کہ صوبے کے تعلیم یافتہ نوجوانوں کوروزگار کے مواقع فراہم کرکے انہیں ان کی قابلیت اور استحقاق کے مطابق آگے بڑھنے کے مواقع ملنے چاہئیں ۔

مگر جہاں تک ریمونیریشن کی آڑ میں ماسٹر لیولکی کلاسز کے لئے ماسٹر ڈگری ہولڈر نوجوانوں کو بھرتی کرنے کا معاملہ ہے یہ سراسر ناانصافی اور طلبہ کے مستقبل کو دا پر لگادینے کے مترادف ہے ۔

بلوچستان میں کالج اساتذہ کی کمی ہے اور اس کمی کو پورا کرنے کا یہ طریقہ ہے کہ فوری طور پر پبلک سروس کمیشن کے ذریعے نئے لیکچرر بھرتی کئے جائیں اور جب تک یہ کمی پوری نہیں ہوتی پہلے کی طرح پروفیسرز اور لیکچررز کوریمونیریشن الانس دے کر انہی کے ذریعے اضافی کلاسز لی جائیں ۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ 2013 سے اب تک بلوچستان میں تعلیم کے بجٹ میں اربوں روپیکا اضافہ ہوتا رہا ہے مگر اس کے باوجود آج بھی غیر سرکاری تنظیمیں صوبے میں تعلیم کے معیار پر عدم اطمینان کا اظہار کررہی ہیں ہر سال تعلیم کے حوالے سے جو سروے رپورٹس آرہی ہیں انہیں پڑھ کرتعلیمی ایمرجنسی کا پردہ فاش ہوجاتا ہے ۔

افسوس کا مقام ہے کہ حکومت میں آنے سے پہلے تعلیم کے شعبے کی بہتری کے لئے جو دعوے کئے گئے تھے وہ ہوا میں اڑ چکے ہیں ۔

محکمہ تعلیم میں سینئرز اور اہل افسران کو نظر انداز کرکے جو نیئر افسران اور وزراکے رشتہ داروں کواہم پوسٹوں پر تعینا ت کیا گیا ہے جو تعلیم کی بجائے پارٹی وزرا کی خوشنودی میں لگے رہتے ہیں ۔

ان افسران کی وجہ سے صوبے کے اہل اور سینئر افسران کی حق تلفی ہورہی ہے جبکہ تعلیم کا شعبہ دن بدنزوال پذیر ہے ہمارے وزرا صاحبان تعلیمی ایمرجنسی کے دعوے تو کرتے ہیں مگر ہمیں سمجھ نہیں آرہی کہ یہ کس طرح کی ایمرجنسی ہے جس میں سکولوں کیلئے رکھے گئے اربوں روپے لیپس ہو کر واپس جارہے ہیں۔

سکولوں کی نئی بننیوالی عمارتوں پر لوگ سوالات اٹھا رہے ہیں اور اب تو حالت یہاں تک آپہنچیہے کہ قوانین کو پامال کرتے ہوئے لیکچررز کی بھرتیاں بھی پبلک سروس کمیشنکو نظر انداز کرکے اپنے چہیتے افسران کے ذریعے کی جارہی ہیں اور اس کیلئے ریمونیریشن کا نام استعمال کیاجارہا ہے ۔

پارٹی یہ سوال پوچھنے کا حقرکھتی ہے کہ ریمونیریشن کا نام استعمال کرکے کالج سائیڈ میں ان سینکڑوں بھرتیوں کے لئے کس کی اجازت لی گئی ،طریق کار کس نے وضع کیا اورریمونیریشن کے نام پر بھرتی ہونے والے لیکچررز کا مستقبل کیا ہوگا۔

نیز اسبات کی کیا ضمانت ہے کہ یہ بھرتیاں سیاسی بنیادوں پر نہیں ہوں گی پارٹیاس طریق کار کی مخالفت کرتی ہے اور اس حوالے سے یہ بات ریکارڈ پر لاناچاہتی ہے کہ آج صوبے میں تعلیم کا شعبہ جس تباہی سے دوچار ہے تاریخ میں کبھی اس صورتحال سے دوچار نہیں ہوا ۔