|

وقتِ اشاعت :   October 17 – 2017

کابل: افغانستان کے جنوب مشرقی صوبے پاکتیا میں قائم پولیس ٹریننگ سینٹر پر ہونے والے خود کش حملے اور مسلح جھڑپ کے نتیجے میں 32 افراد ہلاک اور 200 سے زائد زخمی ہوگئے۔

فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق صوبہ پاکتیا کے دارالحکومت گردیز کے پبلک ہیلتھ ڈائریکٹر ہدایت اللہ حمدانی نے بتایا کہ ’ہلاک ہونے والوں میں خواتین، طلباء اور پولیس اہلکار شامل ہیں‘۔

دوسری جانب طلوع نیوز کی رپورٹ کے مطابق سیکیورٹی حکام نے تصدیق کی کہ گردیز میں ہونے والے خود کش بم دھماکے میں پاکتیا صوبے کے پولیس چیف طوریالانی عبدیانی بھی ہلاک ہوگئے۔

افغان میڈیا نے عینی شاہدین کے حوالے سے بتایا کہ حملے میں درجنوں افراد ہلاک ہوئے۔


صوبہ پاکتیا کے حملے میں پولیس چیف طوریالانی عبدیانی بھی ہلاک ہوئے— فوٹو: بشکریہ طلوع نیوز.

صوبہ پاکتیا کے حملے میں پولیس چیف طوریالانی عبدیانی بھی ہلاک ہوئے— فوٹو: بشکریہ طلوع نیوز.


طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر اپنے پیغام میں پاکتیا کے دارالحکومت میں ہونے والے حملے کی ذمہ داری قبول کرلی۔

افغان وزیر داخلہ کے جاری بیان میں کہا گیا کہ ’پہلے ایک خود کش بمبار نے بارود سے بھری کار کو ٹریننگ سینٹر کے قریب دھماکے سے اڑایا جس کے بعد متعدد مسلح حملہ آوروں نے فائرنگ کا آغاز کردیا‘۔

بیان میں مزید کہا گیا کہ پاکتیا کے پولیس ہیڈکوارٹر کے قریب ٹریننگ سینٹر میں ہونے والے حملے میں سیکیورٹی فورسز اور خود کش جیکٹس پہنے ہوئے مسلح حملہ آوروں کے درمیان لڑائی جاری ہے۔

علاوہ ازیں مقامی حکام نے بتایا کہ پولیس کے صوبائی ہیڈکوارٹر میں قائم دو مختلف کمپاؤنڈز کے قریب دو کار بم دھماکے ہوئے، جن میں سے ایک افغان نیشنل آرمی اور دوسرا سرحدی پولیس کے زیر انتظام تھا۔

پاکتیا کے صوبائی کونسل کے رکن اللہ میر بہرام کا کہنا تھا کہ ’مسلح افراد کا ایک گروپ کمپاؤنڈ میں داخل ہوا اور فائرنگ کردی‘۔

یاد رہے کہ صوبہ پاکتیا پاکستان کی سرحد سے منسلک ہے جہاں طالبان سے تعلق رکھنے والے حقانی نیک ورک کی موجودگی کا الزام لگایا جاتا ہے۔

اس گروپ پر 2001 کے بعد امریکی فوج کے افغانستان میں مداخلت کے بعد مقامی حکومت، پولیس اور غیر ملکی فوجیوں پر ہونے والے متعدد خود کش حملوں کا الزام بھی لگایا جاتا ہے۔

رواں سال مئی میں کابل میں بارودی مواد سے لدے ٹرک کے ذریعے کیے جانے والے بم دھماکے میں 150 افراد کے ہلاک ہونے کی ذمہ داری بھی حقانی نیٹ ورک پر عائد کی گئی تھی۔

اس کے علاوہ حقانی نیٹ ورک پر اعلیٰ افغان حکام کے قتل اور اغوا میں ملوث ہونے کا الزام بھی لگایا جاتا ہے۔