|

وقتِ اشاعت :   October 21 – 2017

پاکستان سے لاکھوں کی تعداد میں مزدور روزگار کے حصول کے لیے مشرق وسطیٰ جاتے ہیں ۔یہ افراد ایجنٹوں کو لاکھوں روپے دیتے ہیں تاکہ خوشحال مستقبل کی ضمانت حاصل کرسکیں ،ان افراد کی پریشانیاں یہیں ختم نہیں ہوتیں بلکہ مسائل اور پریشانیوں کی دلدل میں دھنستے چلے جاتے ہیں۔متحدہ عرب امارات کی سب سے جدید ریاست دبئی کے ایئر پورٹ پر پاکستان سمیت دنیا بھر سے پروازیں پہنچتی ہیں۔

ان پروازوں میں اکثر مزدور خوشحالی کے خواب آنکھوں میں سجائے محنت مشقت کی شاہراہ پر سفر کے لئے تیار ہوتے ہیں تاکہ معاشی خوشحالی کی منزل پاسکیں۔لاہور کے مضافاتی علاقے کوٹ رادھا کشن سے تعلق رکھنے والا غلام محمد بھی ان میں سے ایک ہے۔

غلام محمد نے پاکستان سے تعلیم حاصل کی الیکٹریکل انجینئرنگ میں تین سال کا ڈپلومہ حاصل کررکھا تھا پر اسے روزگار حاصل نہیں ہوا ۔غلام محمد کے والد کوٹ رادھا کشن میں مزدوری کیا کرتے تھے ،گھر کاچولہا انکی مزدوری سے ہی چلا کرتا تھا غلام محمد گھر کی تنگ دستی سے تنگ آکر ایک دن اپنی تعلیم کا سلسلہ ترک کردیا اور نوکری یعنی روزگار کی تلاش شروع کردی لیکن کوئی بھی مناسب روزگار نہ ملا ۔

ایک دن وہ اپنے گھر کے آنگن میں سوچوں کے سمندرمیں ڈوبا ہوا تھا کہ اچانک اس کی نظر اپنے چھوٹے بہن بھائیوں پر پڑی اور وہ انکے مستقبل کے بارے میں سوچنا شروع کیا کہ آخر انکا مستقبل کیا ہوگا اگر یہ ٹھیک طرح تعلیم حاصل کریں تو یہ کل کے اچھے ڈاکٹر انجینئر بن سکتے ہیں میری طرح ان کا براحال نہ ہوگا ،اس کے ذہن میں خیال آیا کہ کیوں نہ دبئی جایاجائے ہوسکتا ہے کچھ حالات بہتر ہوجائیں۔

اس نے جیسے ہی دبئی جانے کا پروگرام بنایا اور ایجنٹ سے بات کی تو ایجنٹ نے اسے کہا کہ دبئی جانے کے لیے تین سے چار لاکھ کا خرچہ ہوگا ۔غلام محمد کے والد مزدور تھے اور اکثر بیمار رہا کرتے تھے مالی حالات بہت تنزلی کا شکار تھے۔اس نے اپنی والدہ کی شادی کا زیور بیچ کر کچھ پیسے اکھٹے کئے اور باقی عزیز واقارب اور دوستوں سے مددمانگی اور ایک دن دبئی پہنچ گیا اور دبئی میںآتے ہی مزدوری شرو ع کردی۔

صبح چار بجے اٹھنا ، کام پر جانا واپس رات کے آٹھ نو بجے آنا ،کھانے پینے کی کوئی روٹین نہیں اور تواور پینے کا پانی بھی ٹھیک نہیں ملتا تھا ۔غلام محمد نے بتایا کہ یہاں لیبر کے حوالے سے کوئی قانون بھی خاص نہیں ہے ۔مزدوری کی اجرت بھی کوئی خاص نہیں ملتی آٹھ سو دھرم میں آپ خود کیا کھاؤ گے اور گھر کیا بھیجو گے ۔ہمارے گھر والوں نے ہم سے جو امیدیں لگا رکھی ہوتی ہیں یہاں آکر ہر کوئی ان پر پورا نہیں اتر سکتا یونکہ دبئی کے حالات ہی کچھ اس طرح کے ہیں ۔

غلام محمد نے 6ماہ تک ایک کمپنی میں مزدوری کی لیکن معاوضہ نہ ملا تنگ آکر اس نے دبئی کورٹ میں کیس کردیا ۔عدالت سے انصاف تو کیا ملنا تھا ویزے کی توسیع نہ ہونے پر جرمانہ عائد کردیا گیا۔ اب چودہ ہزار دھرم جرمانہ ادا کرے یا پھر سزا کاٹے اس کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں۔ایک سال تک دبئی کورٹ میں کیس چلتا رہا ،اتنے میں پاکستان میں انکے والد کی طبعیت خراب ہوگئی گھر سے فون آیا کہ کچھ پیسے بھیجو یہ گھر کیا بھیجتا خود مسائل کے حصار میں تھا ۔

یہ صرف غلام محمد کی کہانی نہیں اس جیسے کئی لوگ دیار غیر میں ہر دن مسائل کی دلدل میں دھنستے جارہے ہیں ۔غربت افلاس اور بھوک کے خاتمے کی تمنا لئے پردیس جانے والے یہ محنت کش ملک کے لئے بھی زرمبادلہ کمانے کا اہم ذریعہ ہیں۔

دنیا تیز ی سے گلوبل ولیج میں تبدیل ہور رہی ہے لیکن اپنے حقوق سے آگاہی نہ ہونے اور ریاست کی جانب سے اپنے محنت کشوں کی خبر گیری نہ کرنے سے یہ افراد ی قوت جیلوں میں سڑنے پر مجبور ہے ۔

منور اسلام پاکستان کے شہر ملتان سے تعلق رکھتاہے ا ن کا خاندان دس افراد پر مشتمل ہے۔سات بھائی اور تین بہنیں اورماں باپ انتقال کرچکے ہیں۔گھر کے معاشی حالات بہتر نہ ہونے اور روزگارنہ ملنے کی وجہ سے دبئی آنا پڑا۔منور اسلام نے بتایا کہ جس طرح ہم اپنے خواب دیکھ کر یہاں آئے تھے سب کچھ اس کے برعکس نکلا ،الٹا پریشانیاں زیادہ ہیں اور جوگھر والوں نے ہم سے امیدیں لگائی ہوتی ہیں ہم نا انہیں پورا کر پاتے ہیں نا خود کسی سکون میں ہوتے ہیں اس سے ملک کی معاشی بدحالی بہت بہتر تھی یہاں تو ہر قدم پر نیا مسئلہ کھڑا رہتاہے۔

بتیس سالہ عبدالجبار بلوچستان کے علاقے ژوب سے ہیں،تین سال سے دبئی میں دکانداری کررہاہے عبدالجبار کا کہناتھاکہ دبئی میں سب سے زیادہ اور بڑا مسئلہ ہمیں جو درپیش ہے وہ یہ ہے کہ یہاں پر ہماری کوئی بھی حیثیت نہیں ہے ہمارے اوپر کفیل بھی ظلم کررہاہے یعنی جو بند ہ بھی یہاں کا مقامی ہے وہ ہمیں حقارت کی نظر سے دیکھتاہے ،یہاں پر میرے مالی حالات بالکل ٹھیک نہیں ہیں ۔

میں اب بھی 12ہزار درھم کا مقروض ہوں،عبدالجبار آج بھی پاکستان واپس لوٹنا چاہتاہے وہ کہتاہے کہ کاش اپنے وطن میں دو وقت کی عزت کی روٹی کماؤں اور پھر کبھی کسی غیر ملک میں اس طرح بے دردی سے نا تڑپوں۔۔۔محمد ادریس پچیس سالہ نوجوان پنجاب کے علاقے لالہ موسیٰ سے ہیں وہ پانچ سال سے دبئی میں مزدوری کررہے ہیں کن تکالیف اور مشکلات کے بعد وہ دبئی پہنچے، ان کا ذکر کرتے ہوئے وہ آبدیدہ ہوگئے لیکن جیسے ہی وہ دبئی پہنچے اور یہاں پر کام شروع کیا تو انہیں سب وہ خواہشیں اور آرزوئیں جھوٹی لگیں جن کو سینے میں سمیٹ کر وہ دبئی پہنچے تھے ۔

محمد ادریس کا کہنا تھاکہ ہمیں سب سے بڑا مسئلہ جو درپیش ہے وہ یہ ہے کہ ہمیں تنخواہ وقت پر نہیں ملتی ۔نہ یہاں پر میڈیکل کی سہولیات ہیں ایک کمرے میں دس سے پندرہ افراد کیسے رہتے ہیں یہ ہم ہی جانتے ہیں جب ہم میں سے کوئی ایک بیمار ہوتاہے تو کس قدر مشکل ہوتا ہے اس چھوٹے سے کمرے میں رہنا وہ ہم اور ہمارااللہ ہی جانتاہے ۔

اللہ کسی کو پردیس میں رہنے کا دکھ نہ دے سوائے تکلیف اور مشکلات کے اسے کچھ حاصل نہیں ہوتا ۔نہ ٹرانسپورٹ کی سہولیات ٹھیک ہیں نہ تنخواہ وقت پر ملتی ہے اورتواور آٹھ گھنٹے ڈیوٹی کے بجائے ہم سے دس سے بارہ گھنٹے ڈیوٹی کراتے ہیں ۔

محمد ذیشان کی عمر چالیس سال ہے یہ پنجاب کے علاقے شیخوپورہ سے تعلق رکھتے ہیں ذیشان پچھلے دس سال سے دبئی میں ٹیکسی ڈرائیور ہیں،اپنے خاندان کی معاشی بد حالی کاذکر کرتے ہوئے انہوں نے بتا یا کہ جب میں یہاں سے پاکستان جاتاہوں سب کے لیے تحائف لے کر جاتاہوں سب بے حد خوش ہوتے ہیں لیکن اس کے برعکس جب میں پاکستان میں دس ہزار کی نوکری کررہاتھا تو نہ گھر والوں اور نہ ہی کسی عزیز واقارب کو پسند آتا تھا ،مسئلہ معاشی حالات کا ہے اگر آپ کے معاشی حالات بہتر ہیں تو تب ہی سب ہی پیار دیتے ہیں ورنا کچھ نہیں ملتا ،مجھے پردیس میں رہنے کا کو ئی دکھ نہیں صرف اپنی بچی یاد بہت آتی ہے۔

میری تین سال کی بیٹی اپنی ماں سے روز پوچھتی ہے بابا دبئی سے کب واپس آئے گا ؟ آخر سال کب ختم ہوگا ؟ میری بیٹی کو میری ضرورت ہے کہ جب وہ سکول سے گھر واپس لوٹے تو مجھے اپنا ہوم ورک دکھائے ،کہیں گھومنے کی فرمائش کرے ،پر میں سوائے پیسوں روپوں کے ان کو کچھ نہیں دے سکا ، دل جلتاہے جب پاکستان سے لوگ آکر کہتے ہیں کیا ترقی ہے کیا سڑکیں ہیں میں آپ سے پوچھتا ہوں انکے پاس ہے کیا گندم اگاتے ہیں چاول کاشت کرتے ہیں کیا ہے ان کے پاس ہم تو اپنے نااہل حکمرانوں کی وجہ سے دیار غیر میں خون تھوک رہے ہیں اسکی آنکھیں محبت کے وصال کے جذبوں کو یاد کرکے برس پڑیں۔

ہجرووصال ، قید وبند کی سختیاں جھیلتے یہ مزدور دبئی میں کمپنی مالکان کے غیر انسانی رویوں کی وجہ سے کئی نفسیاتی امراض کا شکار ہورہے ہیں۔رنگ و نور سے جگمگاتی شاہراہیں ،آسمان کو چھوتی بلند عمارتیں دبئی کی پہچان ہیں جہاں ایک طرف زندگی خوشحالی کے رقص وسرور میں مسکراتی نظرآتی ہے تو دوسری جانب ہجرت کا دکھ اوڑھے محنت کش معاضے کی ادائیگی نہ ہونے کا شکوہ کرتے نظر آتے ہیں۔

اپنوں سے دور،صحرا کی تپتی دھوپ ، محنت کے پسینے سے شرابور یہ محنت کش معاشی ناہمواریوں میں بہتری کی آس لیے دیار غیر میں مشق ستم بنے ہوئے ہیں۔ پردیس میں اپنوں کے معاشی حالات کی بہتری کے لیے یہ محنت کش اپنی زندگی کا سودا لگا بیٹھے ہیں۔

روشنیوں سے شرابو ر دلہن کی مانند دکھنے والی دبئی کی بلند وبالا عمارتوں کو تعمیر کرنے والے ،ہزاروں پاکستانی مزدوروں کی آہیں ، آنسو ، سسکیاں اور وہ خوشحالی کے خواب جو اپنے وطن سے امانت کے طور پر لائے تھے سب ان خوبصورت دلفریب عمارتوں کے نیچے دفن دکھائی دیتے ہیں جہاں لوگ سیر وتفریح کے نشے میں مگن ہیں۔ میں نے دیار غیر میں پاکستانیوں کو ایندھن بنتے دیکھا ۔


نوٹ : کالم نگار کی رائے سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں