|

وقتِ اشاعت :   November 22 – 2017

زمبابوے کے صدر رابرٹ موگابے نے 37 برس تک اقتدار میں رہنے کے بعد استعفیٰ دینے کا اعلان کردیا ہے۔

ان کی حکومت کے اقتدار پر فوج نے چند روز پہلے قبضہ کرلیا تھا اور کئی روز سے جاری احتجاجوں کے سلسلہ بھی جاری تھا۔

زمبابوے کی پارلیمان کے سپیکر جیکب مُڈینڈا نے ان کے مستعفی ہونے کا اعلان کیا ہے۔

روائیٹرز نیوز ایجینسی کے مطابق، رابرٹ موگابے کی جانب سے لکھے گئے ایک خط میں انھوں نے مستعفی ہونے کا فیصلہ رضاکارانہ طور پر کیا ہے تاکہ انتقال اقتدار کا عمل آرام سے مکمل ہو سکے۔

ان کے اس اچانک فیصلے کے نتیجے میں ان کے مواخذے کا عمل رک گیا ہے۔

اطلاعات کے مطابق، عوام کی ایک بڑی تعداد اور پارلیمان کے ارکان ان کے استعفے خبر آنے کے بعد جشن مناتے ہوئے سڑکوں پر نکل آئے۔

رابرٹ موگابے گزشتہ دنوں کی فوج کی بغاوت اور عوامی احتجاج کے تواتر کے باوجود مستعفی ہونے مزاحمت کررہے تھے۔

موگابے 1980 میں اقتدار میں آئے تھے۔ انھوں نے ایک مقبول رہنما کی طرح کئی انتخابات جیتے مگر پندرہ برس قبل کے انتخابات کے بعد ان کے سیاسی مخالفین کو ریاستی تشدد کا سامنا کرنا پڑا۔ ان کے اس دورِ اقتدار میں آج لوگ 1980 کے مقابلے میں پندرہ فیصد زیادہ غریب ہیں۔

اس وقت ان کے اقتدار سے الگ ہونے کی وجہ ان کا اپنے نائب صدر کو چند ہفتے قبل برطرف کیا جانا تھا۔ اس برطرفی سے یہ شکوک بڑھ گئے کہ وہ اپنا جانشین اپنی بیوی گریس کو بنانا چاہتے ہیں۔ اس بات کو ان کی فوج نے نہ پسند کیا اور حکومت پر قبضہ کرکے انھیں نظر بند کردیا۔

رابرٹ موگابے 1960 کی دہائی کے افریقی نو آبادی رہوڈیشیا جو آج زمبابوے کہلاتا ہے کے ایک حریت پسند رہنما کے طور پر ابھرے تھے۔ وہ اس وقت نوآبادیاتی نظام اور عالمی سامراجیت اور سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف ایک مزاحمتی لیڈر قرار پائے تھے۔