|

وقتِ اشاعت :   November 27 – 2017

خیبر پختونخوا کے دارالحکومت پشاور شہر کے علاقے حیات آباد میں زرغونی مسجد کے قریب ایک دھماکے میں ایڈیشنل آئی جی ہیڈ کوارٹر اشرف نور شہید جبکہ چھ افراد زخمی ہو ئے ۔پولیس حکام کے مطابق دھماکے میں ایڈیشنل آئی جی کی گاڑی کو نشانہ بنایا گیا۔

حیات آباد کا شمار شہر کے اہم علاقوں میں ہوتا ہے جہاں متعدد سرکاری دفاتر موجود ہیں۔ 22 نومبر کو پشاور میں دیسی ساختہ باردوی سرنگ کے دھماکے میں فرنٹیئر کانسٹیبلری کے تین اہلکار شہید اور آٹھ زخمی ہو گئے تھے۔ایڈیشنل انسپکٹر جنرل پولیس ہیڈ کوارٹر خیبر پختونخوا اشرف نور تیسرے پولیس افسر ہیں جنہیں اس ماہ دہشت گردی کے واقعے میں شہید کیا گیا ۔

اس سے پہلے دو پولیس افسران کو کوئٹہ میں شہید کیا گیا تھا۔اشرف نور کا تعلق گلگت بلتستان کے علاقے سکردو سے تھا سروس کے دوران وہ خیبر پختونخوا کے مختلف علاقوں ایبٹ آباد، چترال، کوہستان میں سپرنٹنڈنٹ پولیس کے عہدوں پر فائز رہے جبکہ جنوری 2005 میں انہیں19 ویں گریڈ میں ترقی دی گئی۔ انھوں نے پولیس کے تفتیش کے شعبے اور کمانڈنٹ پولیس ٹریننگ کالج کے فرائض بھی انجام دئیے ۔

دہشت گردی کی تازہ کاروائیوں میں پولیس افسران و اہلکاروں کو تواتر سے نشانہ بنایا جارہاہے اورخاص کر پولیس کے اعلیٰ افسران کو منظم طریقے سے ٹارگٹ کیاجارہا ہے ۔ یہ بات کسی سے اب ڈھکی چھپی نہیں کہ دہشت گردکہاں سے آکر تخریب کاری کرتے ہیں اورپولیس افسران کو سافٹ ٹارگٹ سمجھ کر نشانہ بناتے ہیں۔ 

ان حالات میں ان کی سیکیورٹی کیلئے نہ صرف بلٹ بلکہ بم پروف گاڑی مہیا کرنے کی ضرورت ہے خاص کر ان افسران کو جو دہشت گردوں کی ہٹ لسٹ پر ہیں۔ ملک کے مختلف علاقوں میں دہشت گرداپنے سہولت کاروں کے ذریعے یہ حملے کررہے ہیں ۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان اس وقت دہشت گردی کے خلاف ایک بہت بڑی جنگ میں نبردآزما ہے اور سیکیورٹی ادارے اپنی مکمل توجہ اس پر مرکوز کئے ہوئے ہیں مگر دوسری جانب حکومت کی بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ کچھ معاملات پر اپنی توجہ مرکز کرے ا ور انہیں حل کرے ۔

اس میں سرفہرست مسئلہ مہاجرین کا ہے پاکستان میں مہاجرین کی تعداد سب سے زیادہ ہے جو خاص کر بلوچستان اور کے پی کے میں رہائش پذیر ہیں۔

چونکہ عالمی قوانین کے مطابق مہاجرین کیلئے ایک ضابطہ موجود ہے جس پر عملدرآمد کرانا حکومت کی ذمہ داری ہے مگرہمارے یہاں افسوسناک صورتحال ہے کہ مہاجرین نہ صرف اپنے شناختی کارڈ اور دیگر دستاویزات بنالیے ہیں بلکہ شہروں میں رہائش سمیت باقاعدہ کاروبار بھی کررہے ہیں ۔

حتیٰ کہ سرکاری نوکریوں پر بھی بھرتی ہوچکے ہیں اور یہ سیاسی حوالے سے بھی متحرک نظرآتے ہیں جس کے خلاف بلوچستان کی سیاسی جماعتوں نے بارہا اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا اور افغان مہاجرین کی باعزت وطن واپسی کے حوالے سے مطالبہ بھی کیا مگر اب تک ان کے مطالبات پر عملدرآمدہوتا دکھائی نہیں دے رہا۔ 

ہونا تویہ چائیے تھا کہ ملکی سالمیت وامن وامان کی صورتحال کو مد نظر رکھتے ہوئے حکومت خود ہی مہاجرین کی واپسی کے لیے اقدامات اٹھاتا لیکن حکومت ہے کہ ہر بار مہاجرین کے قیام کی مدت میں توسیع کرتی جارہی ہے ۔

حکومت کو چائیے کہ اندیشوں سے نکل آئے اور ہمت کرکے مہاجرین کی حتمی واپسی کیلئے اقدامات اٹھائے،اور کسی بھی رکاوٹ یا سیاسی دباؤ کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے ملکی مفادات کو مد نظر رکھ کر ان کی واپسی کو یقینی بنائے تاکہ پاکستان دائمی امن کی طرف پلٹ سکے اور عوام کو وہ سکون میسر آئے جو کبھی ان کو حاصل تھا۔