|

وقتِ اشاعت :   November 28 – 2017

حالیہ واقعات سے یہ ثابت ہوگیا ہے کہ ملک سے زیادہ اہم ایک وزیر ہے جو پورے مسئلے کا ذمہ دار ہے ۔ وزیر قانون نے قومی اسمبلی میں بل پیش کیا تھا اور خاموشی سے اس کو پاس بھی کروایا تھا جب ملک بھر میں احتجاج ہو ا تو قانون کو دوبارہ اصل صورت میں بحال کردیا گیا ۔

جب نواز شریف کے حکم پر اس کی تحقیقات کی گئیں تو معلوم ہوا کہ وزیر قانون اس کے ذمہ دار ہیں اور انہوں نے جان بوجھ کر اس مسئلے کو چھیڑا اور آئین میں ترمیم پارلیمان سے پاس کروائی ۔ مذہبی گروہوں اور جماعتوں نے احتجاج کیا اور وزیر قانون کو اس کا ذمہ دار ٹھہرا یا جبکہ مسلم لیگ نے بھی اس کی تصدیق کی کہ وزیر قانون اس کے ذمہ دار ہیں اور مسلم لیگ کی تحقیقاتی کمیٹی نے بھی یہی فیصلہ صادر کردیا۔ 

معمول کے جمہوری اقدار اور روایات کے مطابق وزیر قانون کو خود ہی استعفیٰ دے دینا چائیے تھا جب روز اول سے یہ ثابت ہوچکاتھاکہ وزیر قانون اس کے ذمہ دار ہیں اور ان پر لحاظ سے فرد جرم عائد ہوچکی ،ان کو بغیر کسی عجت کے فوری طورپر استعفیٰ دے دینا چائیے تھا۔ 

انتظامیہ پر یہ بھی فرض تھا کہ ہجوم کو اکٹھا ہونے سے قبل ہی منتشر کردیتے تاکہ مسئلہ طول نہ پکڑتا ۔ وزیر قانون نے جمہوریت اور جمہوری اصولوں کی پاسداری نہیں کی بلکہ ان اصولوں کو پامال کیا اخلاقی طورپر ان کے عہدے پر براجمان ہونے کا کوئی جواز نہیں تھا ۔

وزیر داخلہ جو سیاست سے کلی طورپر نابلد ہیں وہ وزیر قانون کی طرف داری کرتے رہے اور یہ کمزور دلیل پیش کی کہ چند ہزار افراد کے مطالبے پر وزیر موصوف استعفیٰ نہیں دیں گے اور وزیراعظم ان کو وزارت سے بر طرف کریں گے اور نہ ہی ان سے استعفیٰ طلب کریں گے ۔چنانچہ عدالت عالیہ نے اس کا نوٹس لیا ا ور انتظامیہ کو احکامات جاری کیے وہ بھی بیس دن کے محاصرے کے بعد ۔

پولیس ایکشن فجر کی نماز کے بعد شروع ہوا اور پہلے چند گھنٹوں میں یہ توقع تھی کہ دھرنا ختم کردیا جائے گا، اتنے میں دوسرے لوگوں نے فیض آباد کا رخ کیا اور زیادہ مستعد اور تازہ دم کارکنوں نے میدان جنگ کا پانسہ پلٹ دیا ۔ 

ہنگامہ آرائی کے دوران پولیس اور ایف سی کے 100سے زیادہ اہلکار زخمی ہوئے ۔ ہنگامے آناً فاناً پورے ملک میں پھیل گئے، حالات کو قابو کرنے کے لیے شام کو حکومت نے فوج طلب کر لی اور دفعہ245کے تحت تمام اختیارات فوج کو منتقل کردئیے ۔ تقریباً چاروں صوبوں میں ہنگاموں سے پورا نظام8 مفلوج ہو کر رہ گیا ،اہم شہروں میں پولیس اور احتجاج کرنے والوں کے درمیان جھڑپیں ہوئیں ۔ 

احتجاج سے پورے ملک میں ٹریفک کی روانی رک گئی اور لوگ گھنٹوں ٹریفک جام میں پھنسے رہے ۔ راولپنڈی مکمل طورپر میدان جنگ بنا رہا جہاں پر سینکڑوں افراد زخمی ہوئے جن میں زیادہ تر سرکاری اہلکار تھے ۔ پولیس کے تقریباً بیس گاڑیوں کو آگ لگا دی گئی ۔ ایک پیٹرول پمپ پر دس کھڑی گاڑیوں کو آگ لگا کر تباہ کردیا گیا ۔ 

جب ہنگامہ آرائی پورے ملک میں پھیل گئی تب وزیر قانون صاحب نے فرمایا کہ اگر ان کے استعفیٰ سے حالات معمول پر آتے ہیں اور ملک میں امن بحال ہوتا ہے تو وہ استعفیٰ دینے کو تیار ہیں۔ 

جبکہ اس سے قبل وزیر موصوف کسی کی بات سننے کو تیار نہیں تھے ،ان کی گن گرج کی آواز پارلیمان میں بھی سنائی دی ،وہ تکبر سے تمام الزامات کو رد کررہے تھے اور فرما رہے تھے کہ آئینی شق اصل حالت میں بحال کردیا گیا ہے اس لیے احتجاج کا جواز نہیں۔لیکن سوال یہ ہے کہ اس شق میں چھیڑ خانی کیوں اور کس کے کہنے پر کی گئی ؟