|

وقتِ اشاعت :   December 7 – 2017

تقریباً دو دہائیوں بعد وزیر ریلوے کی جانب سے اس بات کی تصدیق کی گئی ہے کہ حکومت ریل کے ذریعے گوادر کی بند رگاہ کو جیکب آباد سے ملائے گی ۔ گوادر ‘ خضدار ‘ جیکب آباد ریلوے ٹریک بچھایا جائے گا ۔

یہ بات وزیر ریلوے سعد رفیق نے سینئر صحافیوں کو ایک بریفنگ میں بتائی انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ اس ریلوے ٹریک کی تعمیر کب شروع ہوگی۔ اس کو مکمل کرنے میں کتنا وقت لگے گا اور اس پر کتنی لاگت آئے گی ۔

جیکب آباد سے ریل کے ذریعے منسلک کرنے کا مقصد گوادر کی بندر گاہ کو ملک کے تمام حصوں سے ملانا ہے جبکہ بلوچستان میں آزاد ماہرین معاشیات کی تجویز یہ ہے کہ گوادر پورٹ کو پہلے نوکنڈی اور زاہدان سے ملایا جائے یا گوادر کو کوئٹہ زاہدان سیکشن سے ملایا جائے کیونکہ فوری طورپر گوادر کی ضرورت وسط ایشیائی ممالک کو ہے جتنی جلدی گوار کو کوئٹہ ‘ زاہدان ریلوے ٹریک کے ساتھ منسلک کیاجائے گا۔ اتنی ہی جلد گوادر پورٹ مکمل طورپر فعال ہوجائے گا اور پاکستان کو اربوں ڈالر کی آمدنی بھی شروع ہوجائے گی۔ 

آزاد ماہرین معاشیات کا خیال ہے کہ اس منصوبے کو جنگی بنیادوں پر مکمل کیاجائے اگر گوادر پورٹ کو فعال بنانا ہے۔ ملکی ضروریات کراچی کے دونوں بندر گاہیں پوری کررہی ہیں اور گوادر پورٹ کاملکی ضروریات پوری کرنے میں کوئی کردار نظر نہیں آتاکیونکہ علاقے میں سینکڑوں میل تک کسی قسم کی معاشی سرگرمی نظر نہیں آتی ۔

پورا بلوچستان اور سندھ کے ملحقہ دیہی علاقے ویران اور بنجر پڑے ہوئے ہیں معاشی سرگرمیوں کے دور دور تک نشانات نہیں ہیں ۔ابھی تک گوادر پورٹ کے لئے کوئی تجارتی کارگو نہیں ہے اس کی ضرورت افغانستان اور دیگر وسط ایشیائی ممالک کو ہے حکومت ان کی ضروریات پوری کرنے کو تیا رنظر نہیں آتی اس لیے گوادر سے منسلک ہر منصوبہ پر کام ٹھپ پڑا ہوا ہے ۔ 

ان میں ریلویز ‘ ائیر پورٹ ‘ پانی کے منصوبے ‘ بجلی گھر کے علاوہ خود گوادر پورٹ کی تعمیر کا دوسرا مرحلہ گزشتہ دو سالوں سے تعطل کا شکار ہے ۔ اس لیے دنیا کے ممالک نے گہرے سمندر کی بندر گاہ گوادر کو نظر انداز کیا ہے اور ان کی نگاہیں چاہ بہار کی بندر گاہ پر لگی ہوئی ہیں جس کے پہلے مرحلے کا افتتاح ہوگیا ہے اس پر ایران ایک ارب ڈالر خرچ کرے گا ۔

چاہ بہار بندر گاہ دراصل بندر عباس کا نعم البدل ہے بندر عباس اور ترکمانستان کے درمیان فاصلہ 2800کلو میٹر ہے جبکہ چاہ بہار اور گوادر سے یہ فاصلہ صرف 1400کلو میٹر ہے ۔ اس سے کم وقت میں سامان کی ترسیل ہوگی ۔ ایران بندر عباس سے سالانہ چھ ارب ڈالر کما رہا ہے ۔ چاہ بہار کے فعال ہونے کے بعد ایران دس ارب ڈالر کمانے کا ارادہ رکھتا ہے ۔چاہ بہار صوبہ بلوچستان کے علاوہ وسطی ایران کے بعض علاقوں کی تجارتی ضروریات کو پور اکررہا ہے ۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت گوادر پورٹ کو دنیا سے کوئٹہ ‘ زاہدان سیکشن کے ذریعے ملائے تاکہ بندر گاہ نہ صرف فعال ہو بلکہ ملک کے لئے اربوں ڈالر بھی کمائے نوکنڈی معدنیات کا بہت بڑا مرکز ہے اس کا گوادر پورٹ کے ساتھ منسلک ہونا ضروری ہے تاکہ وسیع معدنیات کو دنیا بھر میں بر آمد کیا جاسکے بلکہ خام لوہے کو چاہ بہار کے اسٹیل ملوں کو فراہم کیا جاسکے ۔

نوکنڈی کو ریلوے لائن کے ذریعے مغربی افغانستان سے ملایا جا سکتا ہے جس سے گوادر اور ترکمانستان کا فاصلہ مزید کم ہوجائے گا ۔