|

وقتِ اشاعت :   December 8 – 2017

پورے ملک میں لوڈشیڈنگ ختم کردی گئی اور بلوچستان کے دارالحکومت سمیت دوردراز علاقوں میں لوڈشیڈنگ اس شدید سرد موسم میں بھی جاری ہے حکومت اور اس کے اکثر اداروں کا بلوچستان سے متعلق دہرا معیار ہے وفاقی حکومت کے اعلان کے بعد نا اہل سابق وزیراعظم نے اس کا کریڈٹ اپنے سر لیا ہے کہ اس کی کاوشوں سے ملک میں لوڈشیڈنگ ختم ہوئی ہے ۔

سارے بیانات میں بلوچستان کو اس ملک کا حصہ تسلیم نہیں کیا گیا جہاں پر لوڈشیڈنگ جاری ہے کوئٹہ میں حسب روایت پانچ سے چھ گھنٹوں کی لوڈشیڈنگ جاری ہے بلکہ اس کے علاوہ ایک سے زائد بار پاور بریک ڈاؤن الگ ہے ۔ بلوچستان کے صارفین کو لائن لاسز کی سزا بھی دی جارہی ہے اس ماہ میں بھی زبردست لوڈشیڈنگ کی جارہی ہے تاکہ لائن لاسز کی سزا صارفین کو دی جائے ۔

اس پر یہ کہ نیلم جہلم بجلی کے منصوبہ کی سرچارج بلوچستان کے عوام سے وصول کی جارہی ہے جو غیر اخلاقی اور غیر قانونی ہے وزیر توانائی نے بڑے دعوے کیے اور اعلان کیا کہ بجلی کی لوڈشیڈنگ ختم کی گئی ہے لیکن بلوچستان میں لوڈشیڈنگ کو جاری رکھا گیا ہے اور خصوصاً اس بنیاد پر کہ یہاں لائن لاسز زیادہ ہیں ادارے اور حکومت کی نا اہلی کی ذمہ داری بلوچستان کے صارفین پر ڈالی جارہی ہے اور لوڈشیڈنگ کی ایک بڑی وجہ بجلی کی چوری ہے ۔

یہ بھی جواز حکومت اور ادارے کی نا اہلی کے زمرے میں آتی ہے بجلی کی چوری کو روکنے ‘ چور کو پکڑنے اور اس کو سزا دینے کے بجائے اس کی سزا صارفین کو دی جارہی ہے بجلی کی چوری کو روکنے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ چوروں کی بجلی کاٹ دی جائے اگر حکومت اور ادارے کے پاس یہ جرات نہیں ہے کہ بجلی چور کو پکڑا جائے اور اس کو عدالتوں سے سزائیں دی جائیں لیکن معاملہ اس کے برعکس ہے ۔ 

بجلی چوری کو روکنے کے بجائے پورے بلوچستان کے نظام زندگی کو مفلوج بنایا جائے اور بجلی کی ترسیل روکی جائے ۔ دوسرے الفاظ میں کروڑوں کام کے گھنٹے ضائع کیے جائیں کیونکہ بجلی کے بغیر کوئی کام نہیں ہو سکتا اس لیے کام کے کروڑوں گھنٹے حکومت اور حکومتی ادارے ضائع کررہے ہیں ۔

دوسری جانب سرکاری طورپر اس بات کی تصدیق ہوگئی ہے کہ کوئٹہ کے90 فیصد صارفین اپنا بل وقت پر ادا کررہے ہیں صارفین کی طرف سے شکایات بالکل ہی نہیں ہیں بقیہ دس فیصد صارفین حکومتی ادارے ہیں وہ نادہندہ ہیں عوام نہیں ‘ حکومت نا دہندہ ہے اس کی سزا صارفین کو کیوں دی جارہی ہے ۔ یہ ایک بہت بڑا ظلم ہے کہ بجلی چور کی سزا صارفین کو دی جارہی ہے کو اور سب سے بڑھ کر لائن لاسز کی سزا لوڈشیڈنگ سے اور مقصد گرتی اور مرتی معیشت کو قبر میں اتارنا ہے ۔

لائن لاسز کا تعلق ٹرانسمیشن لائسز سے ٹرانسمیشن لائن کا یہ عالم ہے کہ یہ 400میگا واٹ سے زیادہ لوڈ نہیں اٹھا سکتی جبکہ بلوچستان کی ضرورت 1600میگا واٹ سے زیادہ ہیں ۔ 

وفاقی حکومت نے ٹرانسمیشن لائن کو بہتر بنانے کے لئے ایک روپیہ کی سرمایہ کاری بلوچستان میں نہیں کی ہے یہ بات اس کے علاوہ کہ سیاسی بنیادوں پر ایک دو گرڈ اسٹیشن وزراء کی فرمائش پر بنائے گئے باقی کیسکو کا یہ حال ہے کہ سالوں قبل صوبائی حکومت نے مکمل رقم ادا کردی کہ نوکنڈی پاور ٹرانسمیشن لائن تعمیر کی جائے ۔ 

سالوں گزر گئے نوکنڈی کی پاور ٹرانسمیشن لائن تعمیر نہیں ہوسکی حالانکہ اس پر آنے والے اخراجات ڈاکٹر مالک کی حکومت سالوں پہلے ادا کرچکی ہے ۔

ہم یہ توقع رکھتے ہیں کہ بلوچستان سے لوڈشیڈنگ کا فوری طورپر خاتمہ کیاجائے اور اس صوبے کو پنجاب کے برابر سمجھا جائے یہاں کے شہری بھی پاکستان کے شہری ہیں اور سب کے برابر کے حقوق ہیں ہم عوامی نمائندوں ‘ سیاسی لیڈروں اور پارٹیوں سے اپیل کرتے ہیں کہ بلوچستان میں ناجائز لوڈشیڈنگ کی مذمت کریں اور حکومت بلوچستان اور اسکے عوام کے خلاف تمام عزائم کو ناکام بنائیں ۔