|

وقتِ اشاعت :   December 13 – 2017

احتساب عدالت نے وزیر خزانہ اسحاق ڈار کو اشتہاری قرار دیتے ہوئے حکم دیا کہ وہ تین دن کے اندر پچاس لاکھ روپے کے ذاتی مچلکے جمع کرائیں ورنہ ان کی تمام جائیداد ضبط کی جائیگی۔ 

نوٹس کے باوجود اسحاق ڈار عدالت میں پیش نہیں ہوئے اس سے قبل عدالت نے ان کی عدالت میں حاضرہونے سے استثنیٰ کی درخواست رد کردی تھی ان کے وکیل کے یہ موقف تھا کہ وہ عارضہ قلب میں مبتلا ہیں اور لندن کے ایک اسپتال میں زیر علاج ہیں ۔انہوں نے عدالت میں ڈاکٹروں کی رپورٹ بھی پیش کی مگر عدالت نے اس کو مسترد کردیا اور فیصلہ دیا کہ وہ آئندہ تین دنوں میں عدالت میں پیش ہوں اور الزامات کا سامنا کریں۔

ابتداء سے ہی یہ اشارے تھے کہ استغاثہ کے پاس کافی مواد موجود ہے جس سے ان کے خلاف قانونی کارروائی کی جا سکتی ہے ۔ دیگرالزامات کے علاوہ اسحاق ڈار پر سب سے بڑا الزام یہ ہے کہ آمدنی کے مقابلے میں ان کے اثاثے زیادہ ہیں جو اس کے معلوم آمدنی سے مطابقت نہیں رکھتے ۔

ان تمام الزامات کے بعد حزب اختلاف نے ان سے استعفیٰ طلب کیا لیکن انہوں نے استعفیٰ دینے سے انکار کیا اور راہ فرار اختیار کی ۔ ویسے ہر شریف آدمی اخلاقی طورپر استعفیٰ دیتا ہے جب اس پر الزامات لگتے ہیں ،مسلم لیگ ن کی پوری حکومت پر کرپشن کے الزامات لگے ہیں لیکن اخلاقی طورپر کسی نے از خود استعفیٰ نہیں دیا ۔جبکہ دیگر معاملات میں اکثر وزراء سے استعفیٰ لے لیے گیا تھا ان میں زاہد حامد‘ پرویزرشیداور مشاہد اللہ خان بھی شامل ہیں ۔ 

زاہد حامد کو سبکی کا سامنا کرنا پڑا انہوں نے اس وقت استعفیٰ دیا جب پور املک سرااپا احتجاج بن گیا تھا اور خود حکومت کے گرنے کا خطرہ پیدا ہوگیا تھا۔ فوج کی مداخلت اور ثالثی کے بعد اسلام آباد کا دھرنا 22دنوں بعد ختم ہوگیا ۔اب رانا ثناء اللہ اور خادم اعلیٰ شہباز شریف بھی بضد ہیں کہ وہ سانحہ ماڈل ٹاؤن رپورٹ کے نتیجے میں استعفیٰ نہیں دیں گے شاید ملکی سیاسی تاریخ کی یہ واحد حکومت ہے جس کو ہر وزیر کے استعفیٰ کے مطالبے پر سبکی کا سامنا کرنا پرا۔ 

حکومت نے اسحاق ڈار سے استعفیٰ نہیں لیا اور اس کو چھٹی پر روانہ کردیا چھٹی پر ہونے کے باوجود وہ وزیر خزانہ ہیں ۔ اب یہ حکومت کے لئے کتنی سبکی کی بات ہے کہ اسکا وزیر اشتہاری ملزم قرار پایا ہے ۔ اسحاق ڈار کے تکبر کا یہ عالم تھا کہ وہ وفاقی وزیروں کے فون تک نہیں سنتے تھے اوران سے بد سلوکی کا مظاہرہ کرتے تھے ان کو صوبوں اورصوبائی حکومتوں سے شدید نفرت تھی جس کا اظہار وزرائے اعلیٰ نے خود کیا۔

بلوچستان کے سابق وزیراعلیٰ نے اپنے کابینہ کے وزیر کو بتایا کہ وزیراعظم سے ملاقات کرنا آسان ہے متکبر وزیر خزانہ اسحاق ڈار سے ملاقات زیادہ مشکل ہے ۔اسحاق ڈار نے اپنے پورے دورمیں بلوچستان کے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھا۔ان کے دور میں ایک بھی میگا پروجیکٹ بلوچستان میں شروع نہیں کیا گیا۔ 

جتنے وفاقی فنڈز بلوچستان کے لئے بجٹ میں مختص کرتے تھے آدھے سے زیادہ رقم واپس وفاقی خزانے میں چلی جاتی تھی ۔ ایک بار سابق وزیراعلیٰ ڈاکٹر مالک بلوچ نے بلوچستان کی ترقی کے لئے ایک خصوصی پیکج کا مطالبہ کیا تو اسحاق ڈار نے متکبرانہ اندازمیں ڈاکٹر مالک کو جواب دیا کہ مشترکہ مفادات کی کونسل میں جاؤ وہاں سے ترقیاتی پیکج حاصل کرو، میں بلوچستان کو کوئی اضافی رقم نہیں دوں گا۔ 

بلکہ ان کے دور میں کچھی کینال کا عظیم منصوبہ بگٹی قبائلی علاقے تک محدودکردیا گیا ۔ اب بقیہ 640,000اضافی زمین سیراب نہیں ہوگی ، اب کچھی کینال کا نام تبدیل کرکے اس کو بگٹی کینال یا سوئی کینال کا نام دیاجائے ۔