|

وقتِ اشاعت :   December 13 – 2017

کوئٹہ: گوادر کی بندرگاہ سے حاصل ہونے والی آمدنی میں سے 91 فیصد چین اور نو فیصد گوادر تر قیاتی ادارے (جی ڈے اے )کو دینے پر بلوچستان کی بیشتر سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں نے تحفظات اور تشویش اظہار کیا ہے اور وفاقی حکومت سے معاہدے پر نظر ثانی کا مطالبہ کیا ہے ۔

بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل ، بی این پی عوامی ،جمعیت علما اسلام ف ، عوامی نیشنل پارٹی اور دیگر جماعتوں نے گزشتہ دنوں سینیٹ میں وفاقی وزیر برائے پورٹس اور شپنگ میر حاصل بزنجو کی طرف سے دئیے گئے ۔

اس بیان پر تشویش کا اظہار کیا ہے کہ گوادر بندرگاہ سے حاصل ہونے والی آمدن کا 91 فیصد حصہ چین اپنے پاس رکھے گا جبکہ گوادر پورٹ اتھارٹی کو صرف 9 فیصد حصہ دیا جائے گا۔

بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل کے مر کزی نائب صدر سینٹیر ڈاکٹر جہانزیب جمالدینی کا وائس اف امر یکہ سے گفتگو کے دوران کہنا تھا کہ سینیٹ میں بتائے گئے فارمولے کے مطابق گوادر کی بندرگاہ سے جتنی بھی آمدنی ہوگی وہ چین کو جائے گی ہم شروع سے اس کی مخالفت کر رہے ہیں ۔

یہ استحصالی پروگرام ہے اسے فوری طور پر واپس لیا جائے ، بین الااقوامی سطح پر اوپن بڈنگ کی جائے تاکہ بین الااقوامی سوداگر آکر اچھے سے اچھے ریٹس بلوچستان اوور پاکستان کو دے سکیںؒ ، اتحاد ہم پہلے سے بناچکے ہیں اور اس اتحاد کو وسعت دینے کی ہماری کو شش جاری ہے ۔

اس کو ہم سعت دینگے تاکہ تمام سیاسی جماعتیں ایک ہی پلیٹ فار م پر متحد ہوں خصوصاً بلوچستان کی دولت جس طریقے سے لوٹی جارہی ہے اسے ہم بچاسکیں ۔جمعیت علما اسلام فضل الرحمان گروپ کے مرکزی رہنما اور سینیٹ کے ڈپٹی چئیر مین مولاناعبدالغفور حید ری نے وائس اف امر یکہ سے گفتگو کے دوران کہا کہ ماضی میں وفاقی حکومتوں نے بلوچستان کے قدرتی وسائل کو بروئے کار لانے کیلئے جو بھی معاہدے کئے ہیں ۔

اُس میں صوبے کے مفادات کا خیال رکھنے کے بجائے سر مایہ کاری کرنے والی کمپنیوں کو زیادہ فائدہ پہنچانے کی کو شش کی جاتی رہی ہے اور یہی حال گوادر کی بندرگاہ کا بھی ہے ،،چین ہمار ا دوست ضرور ہے اس میں کو ئی شک نہیں ہے اُنکے تجارتی مفادات وابستہ ہیں مگر بلوچستان جہاں سے یہ دولت کا سیلاب گزرنے والا ہے ، ۔

بلوچستان کو اہمیت دینی چاہیے گوادر کے باسیوں کو اہمیت دینی چاہیے ۔ گوادر بندرگاہ کی تعمیر کے لئے2007میں وفاقی حکومت نے سنگاپور پورٹ اتھارٹی کے ساتھ معاہد ہ کیا تھا لیکن سنگاپور اتھارٹی مقررہ وقت میں بندرگاہ کی تعمیر نہیں کر سکی۔

پھر 2013میں گوادر کی بندرگاہ انہی شرائط کے تحت چینی اوورسیز پورٹس ہولڈنگ کمپنی کو دی گئی اور سنگاپور پورٹ اتھارٹی سے کیے گئے معاہدے میں کوئی ترمیم نہیں کی گئی معاہدے کے مطابق گوادر کی بندرگاہ کا 75 فیصد حصہ چین ادا کر یگا،بندرگاہ 2048تک چین کے پاس رہے گی اور اس کی تعمیر کرنیوالی اوورسیز پورٹس ہولڈنگ کمپنی اس عرصے کے دوران پانچ ارب ڈالر خرچ کرے گی۔

وزارت منصوبہ بندی کے ترجمان عاصم خان کے مطابق گوادر کی بندرگاہ 2048کے بعد تمام اثاثہ جات کے ساتھ گوادر پورٹ اتھارٹی کو منتقل ہو جائیگی جن میں گوادر فری زون اور گوادر بندرگاہ میں جاری اربوں ڈالر کا کاروبار بھی شامل ہے۔

گوادر پورٹ اتھارٹی کو 2048 تک بندرگاہ کی آمدن سے 9فیصد حصہ اور15فیصد منافع گوادر میں فری اکنامک زون میں ہونیوالے کاروبار سے ملے گا۔وفاقی وزیر برائے پورٹ وشپنگ میر حاصل بزنجو نے وائس اف امر یکہ سے گفتگو کے دوران کہا کہ بندرگاہ کا 99 فیصد اختیار اگر گوادر ترقیاتی ادارے کے پاس ہوتا تب بلوچستان کو کچھ نہیں ملتا کیونکہ بندرگاہوں کا اختیار وفاقی کے پاس ہے اور اس کی آمدن بندرگاہ پر ہی خر چ کی جاتی ہے لیکن وہاں جو تر قی اور تر قیاتی کام ہورہے ہیں ۔

اُس سے لوگوں کو روزگار کے مواقع ملیں گے صوبائی حکومت کو وہاں ٹیکسز سے آمدنی میں حصہ ملیگا ۔گوادر بندر گاہ کا افتتاح تقر یباً ایک سال پہلے سابق وزیر اعظم نوازشریف نے کیا تھا اور اس بندرگاہ سے چین سے آنے والے دوسو سے زائد کنٹینروں کا مال مشرقی وسطی اور جنوبی افریقہ کے ممالک کو اسی بندرگاہ سے روانہ کیا گیا تھا ۔