|

وقتِ اشاعت :   December 19 – 2017

گزشتہ دنوں روپے کی قدر میں کمی واقع ہوگئی اور ڈالر 105سے بڑھ کر112روپے کا ہوگیا۔ اس سے قبل آئی ایم ایف نے یہ مشورہ دیا تھا کہ روپے کی قدر میں 15سے 20فیصد کمی کی جائے۔

حکومت کی طرف سے کوئی ردعمل نہیں آرہا جس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے مارکیٹ فورسز نے روپے کی قیمت میں بغیر کسی سرکاری اعلان کے کمی کردی ہے۔

برآمدات میں مسلسل کمی ہورہی ہے ،درآمدات برآمدات سے کہیں زیادہ ہیں اور تجارتی خسارہ بڑھتا جارہا ہے بلکہ قابو سے باہرہوتا نظر آرہا ہے۔ حکومت نے 180ارب روپے کے ایک پیکج کا اعلان کیا تھا جس کا مقصد ملکی برآمدات کو بڑھانا اور تجارتی خسارے کو کم کرنا تھا۔

ابھی تک حکومت نے اس پیکج کی تفصیلات سے عوام کو آگاہ نہیں کیا، نہ ہی یہ بتایا جاتاہے کہ اس اسکیم کا کیا بنا۔ معاشی مشکلات کی سب سے بڑی وجہ بے تحاشہ درآمدات خصوصاً غیر ضروری درآمدات میں اضافہ ہے جس نے تجارتی خسارہ کو بڑھا دیا ہے۔

دوسری جانب برآمدات میں مسلسل کمی کا رجحان ہے جس سے ملک کی معاشی مشکلات میں اضافہ ہورہاہے۔ لوگوں کی قوت خرید کم سے کم تر ہوتی جارہی ہے اور روپے کی قدرمیں کمی کے بعد اس میں مزید کمی کا رجحان ہے۔

دوسری طرف شاہ خرچ حکومت خصوصاً نواز شریف کا دور ایک بادشاہت کا دور تھا جس میں سرکاری خزانے کو بے دردی سے لوٹا گیا۔سابق وزیراعظم نے اپنے دور چار سالہ دور حکومت میں 70ممالک کا دورہ کیا۔ اربوں روپے اس کی شاہ خرچی کی نذر ہوگئے۔

بجٹ سے ہٹ کر ان کی شاہ خرچیوں کی مثال نہیں ملتی، وہ اپنے آپ کو بادشاہ سمجھتا تھا اور کسی کے سامنے جوابدہ نہیں تھا۔ اپنے سیاسی حمایتیوں کو نوازتا تھا ۔ نواز شریف کے آخری دنوں میں 70 ارب روپے صرف اس کام کے لیے مختص کیے گئے کہ پنجاب کے سیاسی حلقوں اور ووٹروں کو گیس کی سہولیات فراہم کی جائیں۔

ملک میں شور مچ گیا اور حکومت کی بدنامی ہوئی تو وہ اخراجات ختم کردیئے گئے کیونکہ سارے اخراجات پنجاب پر کیے جارہے ہیں دوسرے صوبوں کو پوچھا بھی نہیں جاتا۔ بلوچستان کے دوسرے بڑے شہرخضدار کو سوئی گیس سے محروم رکھا گیا ہے، بہانہ یہ ہے کہ ان کے پاس وسائل نہیں ہیں۔

دوسری طرف نواز شریف اپنے سیاسی حمایتیوں کو سرکاری خرچ پر گیس پہنچانے کے انتظامات کررہے تھے۔ جب یہ ثابت ہوا کہ بلوچستان اور دوسرے کم ترقی یافتہ علاقوں کے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھا جارہا ہے تب جاکر وہ اخراجات روک دیئے گئے مگر پھر بھی خضدار جو پاکستان کا دل ہے اور پاکستان کے وسط میں واقع ہے ،اس کو سوئی گیس سے محروم رکھا گیا ہے ۔

خضدار مستقبل کا سب سے بڑا معاشی سرگرمیوں کا مرکز بننے والا ہے اس کو صرف بنیادی ڈھانچے کی ضرورت ہے جو ملک اور عوام کی خوشحالی کا پیغام لائے گا۔ ملک کے تمام وسائل صرف پنجاب پرصرف کیے جارہے ہیں اور دیگر علاقوں کو نظر انداز کیا جارہا ہے۔


پنجاب کی معیشت اگر مفلوج ہوگئی تو یہ پورے ملک کے لیے رسوائی کا سامان ہوگا۔ اگر ملک کے دیگر علاقے پنجاب کے ہم پلہ بنائے جاتے تو مجموعی طور پر ملک کو خطرات لاحق نہیں ہوتے۔

اگر پنجاب میں بعض وجوہات کی بناء پر بحران پیدا ہو گیاتو دوسرے علاقے ملک کی گاڑی کو چلاتے رہتے۔ ابھی بھی وقت ہے کہ ملک کو ایک متوازن ترقی کی راہ پر چلایا جائے اسی میں ہم سب کا بھلا ہوگا۔