|

وقتِ اشاعت :   December 21 – 2017

ڈیجیٹل رائٹس فاؤنڈیشن (ڈی آر ایف) نے انکشاف کیا ہے کہ سوشل میڈیا ’فیس بک‘ پر آن لائن ہراساں کیے جانے کے سب سے زیادہ واقعات پیش آئے اور مجموعی طورپر متاثرین میں 67 فیصد تعداد خواتین کی ہے۔

ڈی آر ایف نے بتایا کہ ان کی سائبر کرائم ہیلپ لائن میں گزشتہ ایک سال کے دوران 1 ہزار 476 کالز موصول ہوئیں جن میں 988 کالز متاثرہ خواتین کی تھیں۔

ڈی آرایف نے بتایا کہ فیس بک پر آن لائن ہراساں کیے جانے والے واقعات میں جعلی اکاؤنٹ کی تشکیل، رضا مندی کے بغیر معلومات کی تقسیم، بلیک میلنگ اور غیر ضروری پیغامات شامل ہیں۔

ڈی آرایف کی جانب سے فراہم کردہ اعداد وشمار کے مطابق آن لائن ہراساں کیے جانے کی سب زیادہ کالز پنجاب سے وصول ہوئی ۔

ادارے نے بتایا کہ ‘کل شکایات کا نصف حصہ صوبہ پنجاب پر مشتمل ہے جبکہ سندھ سے 18 فیصد، خیبرپختونخوا سے 5 فیصد، بلوچستان سے 2 فیصد، آزاد کشمیر سے 1 فیصد اور اسلام آباد سے 5 فیصد شکایات موصول ہوئیں’۔

ڈی آر ایف کی سربراہ نگہت داد نے بتایا کہ ‘ہیلپ لائن قائم کرنے کا مقصد آن لائن ہراساں ہونے والوں کو ایک پلٹ فارم فراہم کرنا ہے تاکہ جو کمی حکومتی اور سیکیوڑی اداروں کی جانب سے ہے وہ پوری ہو سکے’۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘ڈی آرایف جنسی حساسیت اور ذہنی صحت پر خصوصی توجہ دیتا ہے’۔

ایک سال قبل سماجی ادارے ڈی آر ایف کی جانب سے ٹول فری ہیلپ لائن 39393-0800 قائم کی گئی تھی۔

رپورٹ میں حکومت اور سیکیورٹی اداروں کو سائبر کرائم کے رپورٹنگ کے میکرنیزم کو بہتر بنانے کے لیے تجویز بھی پیش کی گئی۔

ڈی آر ایف کا کہنا تھا کہ ‘وفاقی تحقیقاتی ادارہ (ایف آئی اے) کے نیشنل رسپانس سینٹر برائے سائبر کرائم کو تکنیکی اور مالی اعتبار سے مزید مستحکم کرنے کی اشد ضرورت ہے تاکہ شکایت پر بروقت اور تسلی بخش کارروائی کی جا سکے۔

انہوں نے زور دیا کہ ‘آن لائن ہراساں ہونے والی خواتین کے لیے علحیدہ ڈیسک بنائی جائے جہاں خاتون تفیش کار کو جنسی حساسیت کے بارے میں مکمل آگاہی ہو۔

رپورٹ کے مطابق جب کوئی شکایت کنندہ ہراساں کرنے والے کے خلاف قانونی چارہ جوئی اورتحقیقات کا خواہش مند ہوتا ہے تو ڈی آرایس قانون کی رو سے کیسز کو این آر 3سی کے حوالے کرتا ہے۔

نگہت داد نے بتایا کہ ‘ڈی آر ایس ہیلپ لائن اسٹاف نے گزشتہ برس 511 کیسز این آر 3 سی کو بھیجوائے’۔

ڈی آر ایف ہیلپ لائن پروجیکٹ کی نگران نے بتایا کہ ‘گزشتہ 2 مہینوں میں 38 کیسز ایف آئی اے کے حوالے کیے جن میں سے 15 شکایت کنندہ نے کامیابی کے ساتھ ایف آئی اے میں کیس فائل کیا۔