|

وقتِ اشاعت :   December 23 – 2017

سیاست میں بعض نووارد افراد پاکستان کی تاریخ اور اس کے عوام کی جمہوریت کے جدوجہد سے آگاہ نہیں ہیں اس لئے وہ ملک میں صدارتی نظام حکومت چاہتے ہیں بلکہ مطالبہ بھی کررہے ہیں کہ موجودہ وفاقی اور پارلیمانی طرز حکومت کو ختم کیا جائے۔ 

شاید انہی لوگوں کے جواب میں آرمی کے سربراہ نے وارننگ دی کہ صدارتی طرز حکومت پاکستان کے لئے خطرناک ثابت ہوگی اس سے چھوٹے صوبوں میں زیادہ بددلی پھیلے گی۔ ملک غلام محمد سے لے کر ایوب خان تک عملاً ملک میں صدارتی نظام رائج رہا ۔

چھوٹے صوبوں اور مسلم بنگال پر ون یونٹ اورمساوی نمائندگی کا فیصلہ تھوپ دیا گیا ۔ ون یونٹ توڑنے کے لئے عوام نے بڑی قربانی دی ۔ اسی طرح بنگال کے عوام نے ایک آدمی ایک ووٹ کے لئے زبردست جدوجہد کی جو آخرکار بنگال کی مکمل آزادی پر منتج ہوئی ۔

آج بنگلہ دیش پاکستان سے الگ ایک آزاد ملک ہے اور پاکستان نے بنگلہ دیش کو ایک آزاد ملک تسلیم کیا ہے اور اس کے ساتھ برابری کی بنیاد پر سفارتی تعلقات قائم ہیں ۔اسی طرح بنگال کے جانے کے بعد مساوی نمائندگی کا معاملہ ختم ہوگیا اور ون یونٹ کو توڑنا پڑا اور تاریخی صوبے بحال کئے گئے ۔

اب ان صوبوں کو مکمل خودمختاری اور زیادہ سے زیادہ اختیارات حاصل کرنے کا مسئلہ درپیش ہے ۔ پاکستان کے اندر رہتے ہوئے ان کو مکمل طور پر صوبائی خودمختاری درکار ہے تاکہ وفاق ان کے جائز قانونی اور آئینی حقوق کی پامالی نہ کرسکے۔

صوبے بھی معاشی طور پر آزاد ہوں اور مالی لحاظ سے وفاق کے دست نگر نہ رہیں یہی قیام پاکستان کی اصل روح ہے اسی وجہ سے پاکستان کے قائدین نے یہ وعدہ کیا تھا کہ صوبے پاکستان کے اندر مکمل طور پر آزاد اور خودمختار ہوں گے اسی وجہ سے صوبوں نے پاکستان میں شمولیت اختیار کی تھی ۔

گورنر جنرل ملک غلام محمد نے صوبوں کے تمام حقوق سلب کئے اور صوبوں کو مفلوج بنادیا۔ اس وقت سے لیکر آج تک شخصی حکومتیں قائم رہیں جس کی کارکردگی عوام نے میاں نواز شریف کی شاہانہ حکومت کے طور پر دیکھ لیا ۔وہ ایسی فرد واحد کی حکومت تھی کہ جس کو کابینہ کا اجلاس بلانا ناگوار گزرتا تھا ۔مشترکہ مفادات کونسل کے نام سے ان کو نفرت تھی ۔

مشترکہ مفادات کونسل کے اجلاس سے زیادہ اہمیت ان کے لیے اپنے جلسوں کی تھی۔ اب یہ ضروری ہوگیا ہے کہ ملک میں مزید سیاسی اور جمہوری اصلاحات کی جائیں اور اختیارات کے منتقلی کے عمل کو تیز کیاجائے۔

وفاقی حکومت کے پاس کم سے کم مگر ضروری اختیارات ہوں تاکہ نظام حکومت کامیابی سے چلے اور باقی تمام اختیارات پہلے صوبوں کو اور بعد میں مقامی اداروں کو منتقل کئے جائیں ۔معاشی اور مالی اختیار سے صوبوں کو مضبوط اور خودمختار بنایاجائے تاکہ وہ وفاق کے دست نگر نہ رہیں ۔

اسی طرح وفاقی پارلیمان کی شکل تبدیل کی جائے زیادہ بہتر یہ ہوگا ایوان بالا اور ایوان زیریں دونوں کو برابر کے اختیارات دئیے جائیں تاکہ پنجاب کی دوسرے صوبوں پر بالادستی کا خاتمہ ہوجائے۔یا پھر قومی اسمبلی میں تمام صوبوں کو برابری کی بنیاد پر نمائندگی دی جائے۔ 

اس سے قبل سرائیکی علاقے ٗ گلگت بلتستان اور پوٹھوہار صوبے بنائے جائیں ۔ تاریخی طور پر بلوچ علاقوں کو دوبارہ بلوچستان میں اور بلوچستان میں افغان مفتوحہ علاقوں کو کے پی کے میں شامل کیا جائے اور ان تمام نئے صوبوں کو مکمل خود مختاری پاکستان کے اندر دی جائے تاکہ ملک کے اندر انتشار کا خطرہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ٹل جائے ۔